بعض اوقات اجتماعی مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں انفرادی اجتہاد کسی صورت بھی کفایت نہیں کرتا ہے‘ مثلاً أمیر المؤمنین یا خلیفۃ المسلمین کا انتخاب ہے۔ فقہاء نے قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں امامت کبری کی کچھ صفات مقرر کی ہیں ۔ اب ان صفات کا خلافت کے امیدواروں میں تحقق یا ثبوت ایک اجتہادی أمر ہے۔ اگر اس کا فیصلہ کوئی ایک شخص کرے گا کہ فلاں شخص میں امامت کی تمام خصوصیات بدرجہ أتم پائی جاتی ہیں لہذا اس کو امام بنا دینا چاہیے تو شاید معاصرتقاضوں ا ور جدید اسلامی معاشروں میں اس فیصلے کی قبولیت عامہ ایک ناممکن أمر ہے لہٰذا ایسے مسائل میں اہل حل و عقد کی ایک جماعت یا عامۃ المسلمین کی رائے سے کسی شخص کو خلیفہ‘ أمیر یا امام منتخب کیا جانا چاہیے جیسا کہ شروع میں حضرت أبوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت مہاجرین و أنصار کے اہل حل و عقد کی ایک جماعت نے کی اور بعد میں عامۃ الناس نے بھی بیعت کر لی۔ اس کے برعکس ہمیں خلفائے راشدین میں یہ طریق کار بھی ملتا ہے کہ حضرت أبو بکر رضی اللہ عنہ نے انفرادی حیثیت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا أمیر مقرر کیا اور مسلمانوں کا أمام منتخب کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سابقہ امام آئندہ آنے والے امام کا انتخاب کر ے۔ لیکن اس طریقہ کار کا عصر حاضر میں اطلاق اس اعتبار سے ناممکن ہے کہ آج حضرت أبوبکر جیسی شخصیت کہاں سے ڈھونڈ کر لائی جائے کہ جن کے انفرادی اجتہاد پر جمیع امت کو اطمینان قلب نصیب ہو۔ لہذا ایسے اجتماعی مسائل میں اجتماعی اجتہاد ہی امت میں اندرونی اختلافات کو رفع کر سکتا ہے اور باہمی جنگ و جدال سے بچا سکتا ہے۔
قانون سازی میں اجتماعی اجتہاد
فقہی مسائل میں قانون سازی کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ بہر حال یہ بات تقریباً تمام علماء کے ہاں مسلم ہے کہ مباح‘ تنظیمی‘ تدبیری اور اجماعی مسائل میں قانون سازی جائز ہے لیکن اختلاف ان مجتہد فیہ مسائل میں قانون سازی کے جواز و عدم جواز کا ہے کہ جن کے بارے میں فقہاء کی آراء مختلف فیہ ہے۔ بہر حال عصر حاضر میں قرآن‘ سنت‘ اجماع اور امت مسلمہ کے و سیع فقہی ذخیرے کو سامنے رکھتے ہوئے کسی اسلامی ریا ست کا قانون مرتب کرنا‘ ایک بہت ہی عظیم اور بڑا کام ہے جو کسی فرد واحد کے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا اس کام کے لیے علماء کی ایک جماعت ہونی چاہیے جس میں اس ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء کو متنا سب نمائندگی حاصل ہو تا کہ وہ قانون اس ریا ست کے تمام مسلمان جماعتوں ‘ تناظیم‘ اداروں ‘ مدار س دینیہ اور متفرق مسالک کے ہاں معتبر شمار ہو۔دین اسلام میں أحکام شرعیہ کی تین بڑی قسمیں ہیں : عقائد‘ عبادات اور معاملات۔ قانون سازی عبادات سے متعلق مسائل میں نہیں کی جا سکتی جبکہ عقائد اور معاملات کے ذیل میں قانون سازی کی جا سکتی ہے۔مولانا مودودی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ اسلام میں دائرہ عبادات کے اندر قانون سازی کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہے۔البتہ عبادات کے علاوہ معاملات کے اس دائرے میں قانون سازی کی گنجائش موجود ہے جس میں کتاب و سنت خاموش ہے۔‘‘[1]
عقائد میں قانون سازی کی مثال یہ ہے کہ پاکستان کے ۷۳ء کے د ستور میں ایک مسلمان کی جو قانونی تعریف بیان کی گئی ہے‘ اس کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان لانا ایک لازمی رکن کی حیثیت رکھتا ہے لہذا اس قانونی تعریف کے ذریعے پاکستان اور دو سرے ممالک میں موجود قادیانی جماعت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے۔معاملات کے میدان میں اجتماعی اجتہاد کے ذریعے قانون سازی کرتے ہوئے اس کا دائرہ کار کیا ہو گا‘ اس کے بارے میں مولانا مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’معاملات میں قانون سازی کے چار شعبے ہیں :۔الف۔تعبیر‘ یعنی جن معاملات میں شارع نے امر یا نہی کی تصریح کی ہے ان کے بارے میں نص کے معنی یا ان کا منشا متعین کرنا۔ب۔ قیا س‘ یعنی جن معاملات میں شارع کا کوئی براہ را ست حکم نہیں ہے‘ مگر جن سے ملتے جلتے معاملات میں حکم موجود ہے‘ ان میں علت حکم مشخص کر کے اس حکم کو اس بنیادپر جاری کرناکہ یہاں بھی وہی علت پائی جاتی ہے جس کی بناپر یہ حکم اس سے مماثل واقعہ میں دیا گیاتھا۔ج۔ا ستنباط و اجتہاد‘ یعنی شریعت کے بیان کردہ و سیع اصولوں کو جزوی مسائل و معاملات پر
|