Maktaba Wahhabi

107 - 214
منطبق کرنا اور نصوص کے اشارات‘دلالتوں اور اقتضاء ات کو سمجھ کر یہ معلوم کرنا کہ شارع ہماری زندگی کے معاملات کو کس شکل میں ڈھالتا ہے۔د۔ جن معاملات میں شارع نے کوئی ہدایت نہیں دی ہے ان میں اسلام کے و سیع مقاصد اور مصالح کو ملحوظ رکھ کرایسے قوانین بنانا جوضرورت کو پورا کر سکیں اور ساتھ ساتھ اسلام کے مجموعی نظام کی روح اور اس کے مزاج کے خلاف بھی نہ ہوں ۔ اس چیز کو فقہاء نے ’’مصالح مر سلہ‘‘ اور ’’استحسان‘‘ وغیرہ ناموں سے مو سوم کیاہے۔‘‘[1] بعض علماء کا کہنا ہے کہ مباحات ‘ تدبیری و انتظامی اور جنگی أمور میں موجودہ پارلیمنٹ بھی اتفاق یا کثرت رائے سے کوئی قانون سازی کر سکتی ہے لیکن کون سا عمل اباحت و تدبیری أمور کے دائرے میں داخل ہے اور کون سا خارج‘ اس کا فیصلہ علماء کی ایک جماعت ہی کرے گی۔ مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’پارلیمنٹ کا دائرہ عمل مباح امور میں تدبیر و انتظام کی حد تک ہے! حاصل یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا دائرہ کار صرف مباحات تک محدود ہے۔۔۔اور اباحت کا بھی ایک پہلو چونکہ شرعی حکم ہونے کا ہے‘ اس لیے اس پر نگرانی کتاب و سنت کی رہنی چاہیے۔۔۔جنگی تدابیر میں أولی الأمر کو اجازت ہے کہ وہ مشورہ کے بعد کوئی سی بھی تدبیر اختیار کر لیں ۔لہٰذا ر سول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کے بعد ا ساری بدر کو فدیہ لے کر رہا کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا۔لیکن قرآن مجید نے اس مباح امر میں ایک شرعی حکم سے ہٹ جانے کی بنا پر سرزنش کی۔‘‘[2] سیا سی ‘ انتظامی‘ ثقافتی اور اجتماعی أمور میں اجتماعی اجتہاد شورائی اور مشاورتی اجتہاد ‘ اجتماعی اجتہاد ہی کا ایک اسلوب ہے جس پر ہم مفصل بحث اس مقالے کے چھٹے باب میں کریں گے۔ شورائی اجتہاد کے بارے میں علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ صرف دینی أمور میں ہو گا جبکہ فقہاء کے ایک دو سرے گروہ کی رائے ہے کہ یہ دینی ودنیوی ہر قسم کے معاملات میں ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ سلف صالحین کے اس اختلاف کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’یری نفر من العلماء کالطبری وابن العربی أن الشوری لا تکون إلا فی الأمور الدنیویۃ کالحروب۔ویری العلماء الآخرون کالآلو سی والجصاص أن الشوری تکون فی الأمور الدنیویۃ‘ وکذلک الأمور الدینیۃ التی لا وحی فیھا‘ لأن الر سول صلي اللّٰه عليه وسلم شاور المسلمین فی أ ساری بدر‘ وھو أمر من أمور الدین والظاہر ھو الرأی الثانی‘ لأن الأمر المطلق بالمشاورۃ فی آیۃ ﴿ وَ شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ﴾ الموجہ للحکام یشمل کل القضایا الدینیۃ والدنیویۃ: السیا سیۃ والاجتماعیۃ والاقتصادیۃ والثقافیۃ التظیمیۃ‘ أی فیما لم یرد لہ نص تشریعی واضح الدلالۃ۔‘‘[3] ’’علماء کی ایک جماعت مثلاً امام طبری رحمہ اللہ اور ابن العربی رحمہ اللہ وغیرہ کا خیال ہے کہ شوری صرف دنیوی امور مثلاً جنگی معاملات میں ہی منعقد ہوگی۔جبکہ علماء کے دو سرے گروہ مثلاً علامہ آلو سی رحمہ اللہ اور جصاص رحمہ اللہ وغیرہ کا کہناہے کہ شوری دنیوی کے ساتھ ان دینی امور میں بھی ہو گی کہ جن میں کوئی وحی نازل نہ ہوئی ہو۔کیونکہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا تھا اور یہ ایک دینی معاملہ تھا۔ہمارے نزدیک دو سری رائے راجح ہے کیونکہ آیت مبارکہ’ وشاورھم فی الأمر‘ میں بھی مطلق مشاورت کا حکم ہے جو حکام کو دینی‘ دنیوی‘ سیا سی‘ اجتماعی‘ اقتصادی‘ ثقافتی اور انتظامی وغیرہ جی سے ان تمام مسائل میں مشورے کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ جن میں کوئی واضح الدلالۃ شرعی نص واردنہ ہوئی ہو۔‘‘ ایک اور جگہ اجتماعی شوری کے دائرہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’وأما شوری الجماعۃ لا شوری الفرد:فھی أعم من الاجتھاد الجماعی لأن الشوری قد تکون مع
Flag Counter