Maktaba Wahhabi

113 - 214
العام باقیاً علی عمومہ‘ وربما یکون مخصصاً ببعض مدلولہ‘ والمطلق قد یجری علی إطلاقہ وقد یقید‘ والأمر وإن کان فی الأصل للوجوب فربما یراد بہ الندب أو الاباحۃ‘ والنھی و إن کان حقیقۃ فی التحریم‘ فأحیاناً یصرف إلی الکراھۃ۔۔۔وھکذا۔والقواعد اللغویۃ ومقاصد الشریعۃ ھی التی یلجأ إلیھا لترجیح وجھۃ عما عداھا‘ مما یؤدی إلی اختلاف وجھۃ نظر المجتھدین واختلاف الأحکام العملیۃ تبعاً لھا۔‘‘[1] ’’اور جب کوئی نص ظنی الدلالۃ ہو‘ تو اس میں اجتہاد اس کے معنی کی معرفت یا اس نص کے الفاظ کی اپنے معنی پر دلالت کی قوت کی تلاش میں ہو گا۔بعض اوقات کوئی نص عام ہوتی اور بعض اوقات مطلق ہوتی ہے۔بعض اوقات کوئی نص امر یا نہی کے صیغے میں ہوتی ہے اور بعض اوقات اپنے معنی پر دلالت عبارت یا دلالت اشارہ وغیرہ کے طریق سے رہنمائی کر رہی ہوتی ہے اور یہ سب اجتہاد کا میدان ہے۔بعض اوقات کوئی عام اپنے عموم پر باقی ہوتا ہے اور بعض اوقات اپنے بعض مدلول کے اعتبار سے مخصوص ہوتا ہے۔مطلق بعض اوقات اپنے اطلاق پر باقی رہتا ہے اور بعض اوقات مقید ہوتا ہے۔أمرکا صیغہ جو درحقیقت وجوب کے لیے ہے بعض اوقات ا ستحباب اور اباحت کے لیے بھی آ جاتا ہے اور نہی کا صیغہ اگرچہ حقیقت میں تحریم کے لیے ہے لیکن بعض اوقات کراہت کے لیے بھی آ جاتا ہے۔۔۔اور ا سی طرح اور بھی قواعد و ضوابط ہیں ۔ایک مجتہد قواعد لغویہ عربیہ اور مقاصد شریعہ کی روشنی میں کسی ایک احتمال کو باقی احتمالات پر ترجیح دیتا ہے اور ا سی بنیاد پر مجتہدین کا اختلاف ہوتا ہے اور عملی احکام میں مختلف آراء سامنے آتی ہیں ۔‘‘ اس کی سادہ سی مثال قرآن کے الفاظ’ثلثۃ قروء‘ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک یہاں ’ قروء‘ سے مراد ’طہر‘ ہے اور مطلقہ عورت کی عدت تین طہر ہے جبکہ امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ’قروء‘ سے مراد’حیض‘ ہے اور مطلقہ عورت کی عدت تین حیض ہے۔ دونوں مکاتب فکر کی رائے کے دلائل أصول کی کتابوں میں موجود ہیں ۔ قرآن کی یہ نص ثبوت کے اعتبار سے قطعی ہے لیکن اپنی دلالت کے پہلو سے محل اجتہاد ہے۔ غیر منصوص مسائل میں اجتماعی اجتہاد غیر منصوص مسائل سے مراد وہ أمور ہیں کہ جن کے بارے میں کوئی صریح رہنمائی نصوص میں موجود نہیں ہے۔ ایسے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے اجتہاد کیا جائے گا۔ ڈاکٹرأحمد رئی سونی حفظہ اللہ ‘ اجتماعی اجتہاد کے میدانوں کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ] کے دور میں اجتماعی مشاورت کے تین بڑے میدان تھے ۔ پہلے دو میدانوں کے بارے فرماتے ہیں : ’’فمنذ العصر النبوی وعصر الصحابۃ‘ بدأ العمل بالاجتھاد الجماعی‘ بعدۃ أشکال وفی عدۃ مجالات اجتھادیۃ۔ولعل العنوان الجامع لأشکال الاجتھاد الجماعی ومجالاتہ فی ھذہ الحقبۃ ھو:((الشوری))‘ وخاصۃ فی مجالات الثلاث:۱۔الشوری فی تدبیر القضایا ال سیا سیۃ وغیرھا من المشاکل والقضایا العامۃ۔۲۔الشوری فی استنباط الأحکام الشرعیۃ التی لا نص فیھا۔‘‘[2] ’’اجتماعی اجتہاد کے عمل کی ابتداء دور نبوت اور صحابہ کرام کے زمانے سے مختلف صورتوں اور اجتہادی میدانوں میں ہوئی۔ اس زمانے میں اجتماعی اجتہاد کی مختلف صورتوں اور دائرہ کار کے لیے ایک جامع عنوان’شوری‘ تھا۔ یہ اجتماعی اجتہاد یا شوری خاص طور پر تین میدانوں میں ہوتی تھی:۱۔ سیا سی اور دیگر عمومی مسائل و مشکلات کی تدبیر میں مشاورت۔۲۔ غیر منصوص مسائل میں استنباط أحکام کے لیے اجتہاد۔‘‘ ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ نے شورائی و اجتماعی اجتہاد کے دو مراحل نقل کیے ہیں جو درحقیقت اجتماعی اجتہاد کے دائرہ کار او ر حدود کا بیان ہے۔ان میں سے ایک غیر منصوص مسائل میں اجتماعی اجتہاد کا میدان ہے۔ غیر منصوص مسائل میں اجتماعی اجتہاد کے بارے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں : ’’إن الشوری أو التشاور إذن تدخل فی نطاق الفقہ فی مرحلتین: المرحلۃ الأولی: مرحلۃ الاجتھاد
Flag Counter