Maktaba Wahhabi

102 - 214
دائمی شریعت وضع کرتی ہیں اور اس امت کے لیے قیامت تک کے لیے احکام ثابت کرتی ہیں ۔ اس لیے اس دعوی کی بنیاد پر نصوص ثابتہ سے بری الذمہ ہو جاناکہ وہ تو عارضی حالات و مکان کے لیے تھیں یا وقتی مسائل کا حل تھیں ‘ سے مکمل طور پر بچنا چاہیے۔ اگر حالات و ظروف تبدیل ہو جائیں گے تو حکم شرعی بھی ان کی اتباع میں بدل جائے گا۔ پس فی الواقع یہ ایک ایسا موضوع ہے جو انتہائی خطرناک ہے اور اس میں لوگوں کے قدم پھ سلنے اور فہم و فرا ست کے گمراہ ہو جانے کے بہت امکانات ہیں ۔ اس لیے یہ لازم ہے کہ اس قسم کے اجتہاد میں اجتماعی اجتہاد ہو تا کہ انفرادی اجتہاد میں ہوائے نفس کو جو خطرہ ہے‘ اس سے بچا جا سکے۔‘‘ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ أن الأحکام قد تتغیر ب سبب تغیر العرف أو تغیر مصالح النا س‘ أو لمراعاۃ الضرورۃ‘ أو لف ساد الأخلاق وضعف الوازع الدینی أو لتطور الزمن وتنظیماتہ المستحدثۃ فیجب یغیر الحکم الشرعی لتحقیق المصلحۃ ودفع المف سدۃ وإحقاق الحق والخیر۔‘‘[1] ’’ أحکام شرعیہ بعض اوقات عرف‘ لوگوں کی مصالح‘ ضروریات کے لحاظ یا اخلاق کے بگاڑ‘ مذہبی رکاوٹ کی کمزوری یا زمانے کی ترقی اور اس کی جدید تنظیم و ترتیب کے سبب سے تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ پس یہ واجب ہے کہ کسی مصلحت کے اثبات یا مف سدہ کو دور کرنے یا حق اور خیر کو ثابت کرنے میں حکم شرعی تبدیل ہوجائے ۔‘‘ ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ نے اس موضوع پر اپنی کتاب میں مفصل گفتگو فرمائی ہے۔ انہوں نے تغیرات میں اجتہاد کو مزید تین ذیلی قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ مصلحت کے تغیر میں اجتماعی اجتہاد‘ زمان و مکان کے تغیر میں اجتماعی اجتہاد اور عرف کے تغیر میں اجتماعی اجتہاد۔ مصلحت کے تغیرمیں اجتماعی اجتہاد مصلحت کے تبدیل ہو جانے سے شرعی حکم بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ نصوص شرعیہ میں کوئی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے بلکہ متعلقہ شرعی حکم اس مسئلے پر لاگو نہیں ہوتا اور اس کی جگہ کسی اور شرعی نص سے اس قضیے میں رہنمائی لی جاتی ہے۔ کسی مسئلے میں مصلحت کی تبدیلی کی وجہ سے ایک شرعی حکم کااطلاق ختم کرتے ہوئے کسی دو سرے شرعی حکم کا نفاذ عبادات کی بجائے صرف معاملات کے میدان میں جائز ہے۔ لیکن مصلحت تبدیل ہوگئی ہے لہذا حکم شرعی بھی تبدیل ہونا چاہیے‘ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ اس بارے میں ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ من المعلوم أن الأحکام الشرعیۃ التی تعلقت بأمور تعبدنا اللّٰہ بھا‘ تعتبر أموراً توقیفیۃ یجب علینا القیام بھا‘ علمنا وجہ المصلحۃ فیھا أو لم نعلم‘ ولکن ھناک من الأحکام ما بنی علی أ ساس تحقیق مصلحۃ معینۃ‘ فإذا تغیرت المصلحۃ أو انعدمت‘ تغیر ذلک الحکم أو توقف لتوقف سببہ‘ وھذا التوقف أو التغیر لیس من قبیل النسخ للحکم‘ لأنہ لا نسخ بعد وفاۃ الر سول صلي اللّٰه عليه وسلم فالحکم الأول باق وإنما لکون محلہ لم تتوفر فیہ الأ سباب الموجبۃ لذلک الحکم فتعذر تطبیق ذلک الحکم فإذا ما توفرت أ سبابہ مرۃ ثانیۃ وجب تطبیقہ فمثلاً إعطاء المؤلفۃ قلوبھم من الزکاۃ قصد بہ تکثیر سواد المسلمین بالمؤلفۃ قلوبھم‘ فلما کثر سواد المسلمین وقویت شوکتھم‘ لم یعد لمن کانت تؤلف قلوبھم أی تأثیر وحاجۃ‘ فأوقف عمر ذلک السھم‘ و لم یکن ذلک منہ ن سخاً أو تعطیلاً‘ وإنما لم ینزل الحکم لعدم توفر سببہ‘ فلو عادر دور المؤلفۃ قلوبھم لنفس الھدف الذی من أجلہ شرع سھمھم وجب أن یعود لھم السھم۔‘‘[2] ’’یہ بات معلوم ہے کہ تعبدی أمور میں أحکام شرعیہ کو توقیفی أمور شمار کیا جائے گااوران احکام کو ا سی طرح قائم کرنا واجب ہے‘ چاہے
Flag Counter