Maktaba Wahhabi

139 - 214
وأکثر قرباً للصواب من الاجتھاد الفردی۔‘‘[1] ’’عمومی مسائل میں اجتہادی خطا سے عوام الناس متاثر ہوتے ہیں ۔ اس لیے ان مسائل میں اجتماعی اجتہاد کرنا چاہیے کیونکہ اس میں بہت باریکی سے تحقیق ہوتی ہے اور مسئلے کے جمیع پہلوؤں پر غور ہوتا ہے اور کسی بھی رائے کی خوب چھان پھٹک ہوتی ہے۔یہ اجتہاد علماء کی ایک جماعت کے تبادلہ خیال اور بحث میں اشتراک کے نتیجے میں نمایاں ہوتا ہے۔ پس اس صورت میں ان کا اجتماعی فیصلہ استنباط میں زیادہ باریکی پر مبنی اور انفرادی اجتہاد کی نسبت صحت کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔‘‘ علوم میں تخصص اور و سعت علوم شرعیہ کی بنیادی طور پردو قسمیں ہیں : پہلی قسم علوم عالیہ کی ہے جو قرآن و سنت پر مشتمل ہے جبکہ دو سری قسم علوم آلیہ کی ہے یعنی وہ علوم جو کتاب و سنت کے فہم میں معاون کی حیثیت رکھتے ہوں جیسا کہ علم أصول تفسیر‘ علم أصول فقہ‘ علم بلاغت‘ علم صرف و نحو‘ علم لغت‘ علم أصول الحدیث وغیرہ۔ ان علوم میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قدر تحقیقات‘ مقالات‘ کتب‘ ر سائل اور مضامین لکھے گئے ہیں کہ ان کا احاطہ اکیلے فرد کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے عصر حاضر میں علوم میں تخصص کا رجحان بہت زیادہ بڑھ رہا ہے۔بعض علماء کا کہنا یہ ہے کہ علوم اسلامیہ میں اس قدر و سعت بھی اجتماعی اجتہاد کا ایک نہایت اہم سبب ہے۔ اجتماعی اجتہاد کی صورت میں ایک فقہی مجلس میں تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ أصول فقہ ‘ لغت اور علم صرف و نحو وغیرہ کے متخصصین مل جل کر غور کریں گے تو تمام علوم کی روشنی میں زیر بحث مسئلے کے جمیع پہلوؤں پر عمدہ تحقیق سامنے آ جائے گی۔ ڈاکٹر شعبان محمد ا سماعیل حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’فمن الملاحظ فی العصر الحاضر وجود ھذہ التخصصات المختلفۃ‘ بحیث یتخصص الباحث فی فرع من فروع العلم‘ مثل التخصص فی اللغۃ العربیۃ‘ أو التفسیر والحدیث‘ أو الفقہ والأصول وما إلی ذلک من فروع المعرفۃ‘ الأمر الذی یجعل أکثر العلماء فی ھذا العصر لایحیطون بکل العلوم والمعارف‘ کما کان شائعاً لدی ال سابقین من العلماء۔فمن النادر‘ بل ومن المستحیل‘ بل ومن المستحیل أن یوجد الفقیہ المجتھد الذی تتحقق فیہ شروط الاجتھاد ال سابق ذکرھا۔ولا مخرج لذلک إلا بالاجتھاد الجماعی‘ الذی یجمع شتات ھذہ العلوم بجمع عدد من التخصصات المختلفۃ‘ بحیث یکمل بعضھم البعض۔‘‘[2] ’’ عصر حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف قسم کے تخصصات کا دور دورہ ہے۔ مثلاً کوئی محقق علم کی ایک شاخ‘ تفسیر‘ حدیث ‘ فقہ ‘ أصول فقہ یا لغت وغیرہ میں تخصص کرتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ اس زمانے میں علماء تمام علوم و معارف کا احاطہ نہیں کر سکتے جیسا کہ سابقہ علماء کا معاملہ تھا۔ پس یہ چیز نادر بلکہ ناممکن ہے کہ کوئی ایسا مجتہد یا فقیہ پایا جائے جس میں اجتہاد کی جمیع سابقہ شرائط پائی جا رہی ہوں ۔ لہٰذا اجتماعی اجتہاد کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ جس میں مختلف تخصصات کے ذریعے اجتہاد کے لیے مشروط تمام علوم کو جمع کر لیا جاتا ہے اور فقہاء آ پس میں مل کر ایک دو سرے کی تکمیل کرتے ہیں ۔‘‘ علوم شرعیہ کے علاوہ علوم دنیویہ میں بھی بہت و سعت پیدا ہو گئی لہذا فقہ الواقع سے متعلق علوم کا احاطہ بھی کسی اکیلے فرد کے لیے تقریباً ناممکن ہو گیاہے۔ ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’فیتجلی فی أن قضایانا الیوم قد شملھا الکثیر من التداخل بین علوم متعددۃ‘ ولم تعد من الب ساطۃ بالشکل الذی کانت علیہ من قبل‘ بل صارت القضیۃ الواحدۃ موضوعاً لأکثر من تخصص فی علوم الاجتماع والاقتصاد وال سیا سۃ والقانون والتربیۃ وغیر ذلک من العلوم‘ ولا یمکن النظر فیھا من خلال
Flag Counter