اس دلیل کا یہ جواب دیاجا سکتا ہے کہ اگر حضرت أ سید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کسی قانون کے الزام کو ناجائز قرار دیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں یہ در ست تھا۔ پس ایک صحابی کا قول و عمل دو سرے کے قول و عمل پر کیسے راجح قرار دیا جا سکتا ہے؟۔
اس اعتراض کا یہ جواب ہو سکتا ہے کہ فی نفسہ یہ روایت کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے لیکن دو سرے بہت سے دلائل کے لیے شاہد کا درجہ ضرور رکھتی ہے۔
چھٹی دلیل
تقنین کا عمل سلف صالحین کے طرز عمل کے خلاف ہے۔خلفائے راشدین‘ تابعین رحمہم اللہ اور أئمہ أربعہ حتی کے بارہ صدیوں تک مسلمانوں کے ہاں تقنین کا رواج نہیں تھا اور اس کے باوجود بھی ان کی شرعی عدالتوں میں تمام مقدمات اور تنازعات کے فیصلے بأحسن و خوبی انجام پا رہے تھے۔شیخ بکر أبو زید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’إن ھذا الحجر والإلزام بقول مقنن أو رأی معین لم ی سبق الحمل علیہ فی صدر الاسلام ولا فی القرون المفضلۃ فلا یعلم من ھدی الصحابۃ رضوان اللّٰہ علیھم مع مشارکتھم فی العلم والمشاورۃ مع بعضھم لبعض الزام واحد منھم للآخر بقولہ بل المعروف المعھود بالنقل عنھم خلافہ۔‘‘[1]
’’ کسی قانونی قاعدے یا معین فقہی ضابطے کی پابندی یا الزام صدراسلام یا خیر القرون میں کہیں بھی نہیں پایا گیا ہے۔صحابہ ] کی تعلیمات میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتاباوجودیکہ وہ ایک دو سرے سے علمی مباحث اور مشورہ کرتے تھے لیکن ان میں کسی نے بھی ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے قول کی اتباع کسی دو سرے پر لازم قرار نہیں دی۔بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں اس کے برعکس طرز عمل رائج و معرو ف تھا۔‘‘
اس کا جواب یہ بھی دیاگیاہے کہ سلف صالحین کے زمانے میں بھی تقنین ہوئی ہے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں انہوں نے سرکاری مصاحف کی تیاری کے بعد باقی مصاحف کو جلانے کا حکم جاری فرما دیا تھااورقرآن کی قراء ت میں اس سرکاری مصحف کی پابندی کو لازم قرار دیا۔
اس کا جواب یوں دیا جا سکتاہے کہ یہ دلیل ہی در ست نہیں ہے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کوئی نیا مصحف یا قراء ت جاری نہیں فرمائی تھی بلکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمع کیے گئے مصحف کو بنیاد بناتے ہوئے کچھ نئے ایسے مصحف تیار کروائے تھے‘ جن کے ر سم الخط میں ممکن حد تک متواتر قراء ات کو سمونے کی کوشش کی گئی تھی۔دو سری اور اہم تر بات یہ ہے کہ اس مصحف عثمانی پر صحابہ کا اجماع تھا اور صحابہ کا اجماع بذات خود ایک شرعی دلیل ہے۔ پس اس دلیل سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہو رہا ہے کہ اجماعی مسائل میں تقنین جائز ہے اور اس کے سب قائل ہیں ۔اصل نزاع تو مجتہد فیہ اور اختلافی مسائل میں تقنین کاہے۔
بعض علماء نے تقنین کو ایک ایسی بدعت قرار دیا جسے سلف صالحین کے دور میں مردود قرار دے دیا گیا تھا۔ اس بارے ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ بعض علماء کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ أن تدوین القول الراجح والإلزام بہ مخالف لما جری علیہ العمل فی عھد النبی صلي اللّٰه عليه وسلم وخلفاء ہ الراشدین ومن بعدھم من السلف الصالح وعرضت ھذہ الفکرۃ من قبل إلی جعفرالمنصور علی الإمام مالک فردھا وبین ف سادھا ولا خیر فی شیء اعتبر فی عھد السلف من المحدثات۔‘‘ [2]
’’قول راجح کی تدوین اور اس کا پابند بنانا ایک ایسا عمل ہے جو عہد نبوی ‘خلفائے راشدین اور سلف صالحین کے دور میں نہیں تھا۔ تقنین کی فکر خلیفہ جعفر منصور کی طرف سے امام مالک رحمہ اللہ پر پہلی دفعہ پیش کی گئی تو انہوں نے اس فکر کا رد کیا اور اس کے فساد کو واضح کیا۔ پس ایک
|