ہوتا ہے کہ جس پر اس حکم کا اطلاق ہو رہا ہوتا ہے اور یہ تبدیلی اس لیے ہوتی ہے کہ اس میں حکم کی تطبیق کی شروط پوری نہیں ہوتیں ‘ پس اس پر ایک دو سرے حکم کا اطلاق ہو جاتا ہے۔مراد یہ ہے کہ نئی صورت حال ایک نئے حکم کے اطلاق کا مطالبہ کرتی ہے اور پہلے والا حکم اپنی جگہ باقی رہتا ہے لیکن چونکہ عرف تبدیل ہو گیا ہے لہذا پہلے حکم کی تطبیق کے لیے معین شرائط کا پایا جانالازمی قرار پاتا ہے۔مثلاً گواہی میں عدالت شرط ہے اور عام حالات میں ظاہری عدالت کفایت کرتی ہے لیکن اگر جھوٹ عام ہو جائے تو پھر یہ شرط تزکیے کے لیے لازم ہو گی۔‘‘
خارج میں عرف کے بدلنے سے شرعی حکم بھی بدل گیا‘ اس کا فیصلہ کوئی عامی نہیں کرے گا بلکہ مجتہد یا مجتہدین کی ایک جماعت کرے گی۔ ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ اس کا فیصلہ انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اجتہاد کی روشنی میں کرنا چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’وضمانۃ لعدم الخطأ فی تقدیر ھذہ الأمور‘ أو التأثر فیھا بالنزعات الفردیۃ الضیقۃ أو ال ساعیۃ إلی تعطیل أحکام الشریعۃ‘ بذریعۃ أنھا قد تغیرت لتغیر أساسھا‘ مع أن أ سا سھا قد یکون نصاً لا یتغیر‘ فحمایۃ للشریعۃ من کل ذلک‘ وتجنیباً للأحکام الشرعیۃ من الأھواء والأخطاء الفردیۃ‘ ینبغی أن یکون الاجتھاد فی ھذا النوع من الأحکام اجتھادا جماعیاً ولیس فردیاً۔‘‘[1]
’’ان أمور کا صحیح اندازہ کرنے یا ان میں انفرادی اور تنگ رجحات یاأحکام شرعیہ کو اس دعوی سے معطل کرنے کاقصد و ارادہ کرنے ‘ کہ وہ اپنی أ س اس کے تبدیل ہوجانے سے خود بھی بدل جاتے ہیں ‘ میں عدم خطا کی ضمانت کے طور پر اجتماعی اجتہاد لازم ہے۔حالانکہ بعض اوقات ان احکام کی ا س اس نص ہوتی ہے جو تبدیل نہیں ہوتی۔ پس شریعت کو ان تمام چیزوں سے بچانے کے لیے اور أحکام شرعیہ کو خواہشات نفسانیہ اور انفرادی خطاؤں سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ اس نوعیت کے احکام میں انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اجتہاد کیا جائے۔‘‘
عمومی مسائل میں اجتماعی اجتہاد
مسائل عموماًدو قسم کے ہیں ۔ پہلی قسم ان مسائل کی ہے جو کسی شخص کی انفرادی زندگی سے متعلق ہوں جیسا کہ طہارت‘ نماز‘ روزہ وغیرہ۔ دو سری قسم کے مسائل وہ ہیں جو اجتماعی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان سے تقریباً تمام معاشرہ ہی متاثر ہوتا ہے۔ ایسے مسائل میں انفرادی کی بجائے اجتماعی اجتہاد کے منہج کو اختیار کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر شعبان محمد ا سماعیل حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’وإذا کانت الوقائع تختلف باختلاف ظروفھا وأحوالھا‘ فمنھا ما یقع لبعض الأفراد‘ من المسائل الخاصۃ والتی یمکن لأی فقیہ أن یجتھد فیھا‘ فھذا النوع یکفی فیہ الاجتھاد الفردی‘ لمن ا ستأھل قواعد الاجتھاد وشروطہ۔ومنھا ما یتعلق بجمھور النا س‘ ویتسم بسمۃ العموم‘ ولم یتقدم لہ نظیر فی أبواب الفقہ‘ أویتسم ببعض السمات التی تغیرتوصیفہ‘ فھذا لا یکفی فیہ رأی الفرد‘ بل لا بد فیہ من الاجتھاد الجماعی‘ لأنہ یکون أقرب إلی الصواب‘ وأبعد عن اختلاف الآراء‘ وإیقاع الأمۃ فی حیرۃ من أمرھا۔‘‘[2]
’’مختلف واقعات و مسائل اپنے أحوال و ظروف کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں ‘ ان میں سے بعض انفرادی نوعیت کے ہوتے ہیں اور کسی بھی فقیہ کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ ان میں اجتہا دکرے۔ اس قسم میں انفرادی اجتہاد بھی کفایت کر جاتا ہے بشرطیکہ اجتہاد کرنے والے میں اجتہاد کی صلاحیت و شروط موجود ہوں ۔جبکہ بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جو عوام الناس کی اکثریت سے متعلق ہوتے ہیں اور عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں ۔ان کے بارے میں أبواب فقہ میں کوئی نظیر بھی موجود نہیں ہوتی یا بعض ایسی صفات کے حامل ہوتے ہیں جو تبدیل ہو جاتی ہیں ‘ ایسے مسائل میں انفرادی اجتہا دکافی نہیں ہے بلکہ اس میں لازماً اجتماعی اجتہاد کرنا چاہیے کیونکہ یہ صحت کے زیادہ قریب اور اختلاف آراء سے دور کرتا ہے اور امت کو حیرت میں پڑنے سے بچاتا ہے۔‘‘
|