Maktaba Wahhabi

112 - 214
دو سری قسم کا اجتہاد کسی نص سے ثابت شدہ حکم کا اس کے صحیح محل پر اطلاق ہے۔ یہ دو سری قسم کا اجتہاد قطعی الدلالۃ و قطعی الثبوت نصوص میں بھی جائز ہے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’الاجتھاد علی ضربین: أحدھما لا یمکن أن ینقطع حتی ینقطع أصل التکلیف وذلک عند قیام الساعۃ۔والثانی یمکن أن ینقطع قبل فناء الدنیا۔أما الأول فھو الاجتھاد المتعلق بتحقیق المناط وھو الذی لا خلاف بین الأمۃ فی قبولہ۔ومعناہ أن یثبت الحکم بمدرکہ الشرعی لکن یبقی النظر فی تعیین محلہ۔‘‘[1] ’’اجتہاد دو قسم کا ہے ان میں سے ایک قسم کا اجتہاد تو وہ ہے جو اس وقت ختم ہو گا جب کہ تکلیف ختم ہو جائے گی اور یہ قیامت کے وقت ہوگا(یعنی پہلی قسم کااجتہاد قیامت تک جاری رہے گی)۔جہاں تک اجتہاد کی دو سری قسم کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں ممکن ہے کہ وہ قیامت سے پہلے ہی ختم ہو جائے۔پہلی قسم کااجتہادتحقیق مناط( کسی شرعی حکم سے نکالی ہوئی علت کا غیر منصوص اشیاء میں اثبات) سے متعلق ہے ۔تحقیق مناط کا معنی یہ ہے کہ کسی چیز کا حکم شرعی دلیل سے ثابت ہو لیکن اس حکم کے محل کی تعیین میں ابھی غور و فکر کی گنجائش موجود ہو۔‘‘ ڈاکٹر مصطفی قطب سانو حفظہ اللہ ‘ امام شاطبی رحمہ اللہ کی اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’فإنہ من الجدیر بالذکر والتقریر بأن الإمام الشاطبی رحمہ اللّٰہ کان یری أن مھمۃ النظر الاجتھادی لا تتوقف عند الوصول إلی حکم اللّٰہ من المسائل التی لم یرد فیھا نص قاطع أو لم یرد فیھا نص مطلقاً ولکنہ ینتظم مھمۃ أخری تتمثل فی الاجتھاد من أجل التعرف علی المحل الذی ینزل فیہ مراد اللّٰہ من المسائل التی ورد فیھا نص قاطع أو ظنی ومن المسائل التی لم یرد فیھا نص مطلقاً وبناء علی ھذا فإن الاجتھاد عندہ رحمہ اللّٰہ ینبغی أن یقسم إلی قسمین أ سا سین وھما اجتھاد یھدف إلی التعرف علی مراد اللّٰہ جل شأنہ فی المسائل المنصوص علیھا نصا غیر قطعی والمسائل غیر المنصوص مطلقاً واجتھاد آخر یروم التعرف علی سبیل تنزیل مراد اللّٰہ فی الواقع۔‘‘[2] ’’ اس بات کا ذکر نہایت ہی اہم ہے کہ امام شاطبی رحمہ اللہ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ اجتہادی غور و فکر کا فریضہ صرف یہی نہیں ہے کہ جن مسائل میں کوئی قطعی نص یا مطلقاً کوئی نص وارد نہ ہوئی ہو‘ ان میں اللہ کی مراد تک پہنچا جائے بلکہ اجتہادی غورو فکر کا ایک بنیادی فریضہ یہ بھی ہے کہ اس محل کو پہچانا جائے کہ جس کے بارے میں اللہ کی وہ مراد نازل ہوئی ہے جو نص ِ قطعی یا ظنی یا غیر منصوص مسائل میں بیان ہوئی ہے۔ اس بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اجتہاد کو دو بنیادی قسموں میں تقسیم کرناچاہیے اوران دونوں میں سے ایک تو ان مسائل میں اللہ کی مراد جانناہے جو غیر قطعی یا غیر منصوص مسائل ہیں اور دو سری قسم سے امر واقعہ میں اللہ کی مراد کے اطلاق کے محل کو پہچاننامقصود ہے۔‘‘ ظنی الدلالۃ مسائل میں اجتماعی اجتہاد ظنی الدلالۃ نصوص بھی اجتہاد کا ایک بہت بڑ امیدان ہیں ‘ چاہے یہ نصوص قطعی الثبوت ہوں یا ظنی الثبوت ‘ ہر دو صورتوں میں ظنی الدلالۃ نصوص کے معنی و مفہوم کی تعیین میں اجتہاد ہو سکتا ہے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وإذا کان النص ظنی الدلالۃ‘ کان الاجتھاد فیہ البحث فی معرفۃ المعنی المراد من النص وقوۃ دلالتہ علی المعنی‘ فربما یکون النص عاماً وقد یکون مطلقاً‘ وربما یرد بصیغۃ لأمر أو النھی‘ وقد یرشد الدلیل إلی المعنی بطریق العبارۃ أو الاشارۃ أو غیرھما‘ وھذا کلہ مجال الاجتھاد‘ فربما یکون
Flag Counter