Maktaba Wahhabi

186 - 214
صاحب کتاب الفکر السامی۔‘‘[1] ’’جمہور معاصر فقہاء نے تقنین کو جائز کہا ہے۔ان علماء میں سعودی عرب کی ہیئہ کبار العلماء کے بعض اراکین ہیں ۔جیسا کہ’ ہیئۃ کبار العلماء‘کی تقنین سے ممانعت والی قرارداد میں بعض ارکان علماء کے بعض تحفظات پر مبنی اضافی نقطہ نظر سے بھی یہ واضح ہو گیا تھا۔ تحفظات کا اظہار کرنے والے ان علماء میں شیخ صالح بن غصون‘ شیخ عبد المجید بن ح سن‘ شیخ عبد اللہ خیاط‘ شیخ عبد اللہ بن منیع‘ شیخ محمد بن جبیر اور شیخ راشد بن خنین رحمہم اللہ ہیں ۔’ ہیئہ کبار العلماء‘ کے ارکان میں سے جنہوں نے تقنین کو جائز قرار دیا ہے ان میں صالح بن عبد اللہ بن حمید شامل ہیں ۔ا سی طرح تقنین کو جائز قرار دینے والوں میں شیخ عبد العزیزبن محمد بن ابراہیم آل الشیخ حفظہ اللہ اور ڈاکٹر عبد الرحمن القا سم حفظہ اللہ بھی ہیں جنہوں نے تقنین اور اس کی ضرورت کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ان کے علاوہ جن مشہور علماء نے تقنین کو جائز قرار دیاہے ان میں شیخ محمد عبدہ ‘ شیخ محمد رشید رضا‘ شیخ أحمد شاکر‘ شیخ محمد أبو زہرہ ‘شیخ مصطفی زرقاء‘ شیخ علی طنطاوی رحمہم اللہ ‘ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی‘ ڈاکٹر یو سف القرضاوی اور شیخ محمد بن حسن حجوی رحمہم اللہ ہیں ۔‘‘ تقریباًیہ تمام علماء مصری ہیں ۔ پس تقنین کے بارے علماء کی دو جماعتوں کے مابین اختلاف در اصل سعودی اور مصری علماء کا اختلاف ہے۔ مانعین کے دلائل جو علماء’ تقنین ‘ کو حرام قراردیتے ہیں ‘ وہ قرآن‘ احادیث‘ اجماع اور دیگر شرعی دلائل کی روشنی میں ا سے ناجائز کہتے ہیں ۔ان علماء کی طرف سے عموماً جو دلائل بیان کیے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔ پہلی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ الناس بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ ﴾[2] ’’ بے شک ہم نے کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے مابین اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجھا دیا۔‘‘ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ﴿ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ عَمَّا جَآئَ کَ مِنَ الْحَقِّ ﴾[3] ’’ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مابین اللہ کے نازل کردہ احکامات کے مطابق فیصلہ کر دیں اور اس حق کے مقابلے میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا ہے ‘ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں ۔‘‘ ان آیات میں اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کووحی اور حق کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے اور حق کیا ہے؟ایک مجتہد کے لیے وہ کسی ایک فقہی مذہب یا تقنین کی صورت میں کسی ریا ستی قانون میں محصور نہیں ہو سکتا۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’فھاتان الآیتان تأمران بالحکم بما أنزل اللّٰہ وھو الحق و الحق لا یتعین بالراجح من أقوال الفقھاء لأنہ راجح فی نظر واضعیہ دون سواھم فلا یصح الالتزام بہ ولا اشتراطہ علی القضاۃ عند تولیتھم ولا بعدھا۔‘‘[4] ’’ پس یہ دونوں آیات اللہ کی نازل کردہ وحی کے مطابق فیصلوں کا حکم جاری کرتی ہیں اور وحی الہی ہی حق ہے ۔اور حق بات فقہاء کے
Flag Counter