الراجح من أقوال الفقھاء)وقسمتہ إلی جزئین الأول حول التدوین والثانی حول اللزوم وصدر قرارھا بالأغلبیۃ بالمنع من التقنین ۔‘‘[1]
’’معاصر علماء کی ایک جماعت نے تقنین کو ناجائز قرار دیا ہے۔ان علماء میں شیخ محمد أمین شنقیطی‘ شیخ بکر أبو زید‘ شیخ عبد اللہ بن عبد الرحمن بسام رحمہم اللہ ہیں ۔شیخ بکر أبو زید نے شیخ شنقیطی حفظہ اللہ سے اس مسئلے میں ایک طویل کلام’مخاطر التقنین ‘ میں نقل کیا ہے۔جبکہ شیخ بکر أبو زید حفظہ اللہ کی اس مسئلے پر اپنی بحث ان کی کتاب’فقہ النوازل‘ میں ’التقنین والإلزام‘کے عنوان سے موجود ہے۔ا سی طرح شیخ بسام حفظہ اللہ کا بھی ایک ر سالہ’ تقنین الشریعۃ أضرارہ ومفا سدہ‘ کے نام سے موجود ہے۔ان کے علاوہ جن علماء نے تقنین کو ناجائز قرار دیا ہے ان میں ’ھیئۃکبار العلماء‘ سعودی عرب کے جمہور علماء ہیں ۔ہیئہ کے فتاوی میں ’تدوین الراجح من أقوال الفقھاء‘کے عنوان سے ایک بحث موجود ہے جو کہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔پہلا حصہ راجح فقہی قول کی تدوین اور دو سرا اس کو لازم قرار دینے کے بارے میں ہے۔ہیئہ کی اکثریت نے ایک قرارداد کے ذریعے ا سے ناجائز کہا۔ ‘‘
جن کبار علماء نے تقنین کو ناجائز کہا ہے ان کے نام بیان کرتے ہوئے شیخ عبد الرحمن بن سعد الشثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ وقد ذھب أکابر العلماء فی عصرنا ھذا إلی حرمۃ تقنین الشریعۃ ومنھم ممن وقفت علیہ: محمد الأمین الشنقیطی وعبد اللّٰہ بن حمید وعبد العزیز بن باز وعبد الرزاق عفیفی وإبراہیم بن محمد آل الشیخ وعبدالعزیز بن صالح ومحمد الحرکان و سلیمان العبید رحمھم اللّٰہ تعالیٰ وعبد اللّٰہ بن عبد الرحمن الغدیان وصالح بن محمد اللحیدان وعبد اللّٰہ بن عبد الرحمن الجبرین وصالح بن فوزان الفوزان وبکر بن عبد اللّٰہ أبو زید وعبدالرحمن بن عبد اللّٰہ العجلان وعبد اللّٰہ بن محمد الغنیمان وعبد العزیز بن عبد اللّٰہ الراجحی وفقھم اللّٰہ تعالی۔‘‘[2]
’’ہمارے زمانے کے بعض اکابر علماء کی رائے یہ ہے کہ مجتہد فیہ احکام شرعیہ میں قانون سازی حرام ہے۔جن علماء کی یہ رائے ہے ان میں سے چند ایک کہ جن کو میں جانتا ہوں ‘ میں محمد أمین شنقیطی‘ عبد اللہ بن حمید‘ عبد العزیز بن باز‘ عبد الرزاق عفیفی‘ ابراہیم بن محمد آل الشیخ‘ عبد العزیزبن صالح‘ محمد الحرکان‘ سلیمان العبید رحمہم اللہ ‘ عبد اللہ بن عبد الرحمن الغدیان‘ صالح بن محمد اللحیدان‘ عبد اللہ بن عبد الرحمن الجبرین‘صالح بن فوان الفوزان‘ بکر بن عبد اللہ أبو زید‘ عبد الرحمن بن عبد اللہ العجلان ‘ عبد اللہ بن محمد الغنیمان اور عبد العزیز بن عبد اللہ راجحی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں ۔‘‘
جن معاصر علماء نے تقنین کو جائز قرار دیا ہے‘ان کے بارے میں ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أجاز التقنین جمہور الفقھاء المعاصرین ومنھم بعض أعضاء کبار العلماء فی المملکۃ العربیۃ السعودیۃ کما تبین ذلک فی وجھۃ نظر المتحفظین علی قرار الھیئۃ بمنع التقنین من أقوال الفقھاء وھم الشیخ صالح بن غصون والشیخ عبد المجید بن حسن والشیخ عبد اللّٰہ خیاط والشیخ عبد اللّٰہ بن منیع والشیخ محمد بن جبیر والشیخ راشد بن خنین وممن یری الجواز کذلک من أعضاء ھیئۃ کبار العلماء الدکتور صالح بن عبد اللّٰہ بن حمید ومن المجیزین للتقنین کذلک الشیخ عبد العزیز بن محمد بن ابراہیم آل الشیخ و الدکتور عبد الرحمن القاسم حیث کتب فیہ بحثاً وا سعاً خلص فیہ إلی جواز التقنین وضرورتہ ومن مشاھیر المعاصرین الذین رأوا جواز التقنین الشیخ محمد عبدہ والشیخ محمد رشید رضا والشیخ أحمد شاکر والشیخ محمد أبو زہرۃ والیشخ مصطفی الزرقاء والشیخ علی الطنطاوی والدکتور وھبۃ الزحیلی والدکتور یو سف القرضاوی والشیخ محمد بن الحسن الحجوی
|