اور احوال کی تبدیلی سے احکام شرعیہ کی تبدیلی کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے ‘ ان کو علماء کا یہ دو سرا طبقہ اس بات پر محمول کرتا ہے کہ حکم شرعی تبدیل نہیں ہوا بلکہ مقیس کی مقیس علیہ سے مشابہت ظاہرا تو ہوتی ہے لیکن مقیس علیہ میں جو علت پائی جاتی ہے وہ مقیس میں نہیں پائی جاتی‘ جس کی وجہ سے حکم کا تعلق مقیس سے نہیں ہوتا۔‘‘
ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بوڑھے زانی جیسی مثال میں علماء کو قرآن و سنت کی و سعتوں اور گہرائیوں سے ایک نیا حکم تلاش کرنا ہے۔ بعض علماء نے مقاصد شریعت کا کلیتاً انکار کر دیا جو ایک در ست طرز عمل نہیں ہے جبکہ دو سر ی طرف بعض مفکرین نے مقاصد شریعت کو اس قدر اہمیت دی کہ اس کی تکمیل کے نام پر جزوی تعلیمات کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ ایک دفعہ جناب حنیف رامے صاحب نے ب سنت کو جاری رکھنے کے حق میں یہ دلیل بیان فرمائی کہ اس کے ساتھ ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور انسانی مال کا تحفظ و فروغ‘ دین اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد ہے۔ پس بسنت پر پابندی لگانا ہزاروں لوگوں کو بے روزگار کرنے کے مترادف ہے۔یہاں طوالت کے خوف سے اشارتاً اس کاتذکرہ کرتے ہوئے ہم آگے بڑھنا چاہیں گے کہ اجتہاد کرتے وقت مقاصد شریعت اور جزئی تعلیمات میں توازن کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔
اجتہادکا حقیقی دائرہ کار
عصر حاضر میں اجتہاد کے حوالے سے سب سے بڑا فتنہ اس کی’ تعریف‘ اور اس کے ’دائرہ کار‘کے ذریعے پیدا کیا جا رہا ہے۔ اس بحث میں ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ اجتہاد کیا ہے؟اجتہاد کے بارے اس وقت تین قسم کے نظریاتعلمی حلقوں میں پائے جاتے ہیں ۔
٭ اجتہادشریعت یعنی قرآن و سنت پر اضافہ کرنے کا نام ہے ؟
٭ اجتہادشریعت یعنی قرآن و سنت کے أحکام میں تبدیلی یاان کے نسخ کا نام ہے ؟
٭ اجتہاد قرآن و سنت کی و سعتوں اور گہرائیوں میں حکم شرعی کی تلاش کا نام ہے ؟
اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ دین محمدی اور شریعت اسلامیہ مکمل ہو چکی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد نبوت کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند ہو چکاہے۔بعض معاصر مفکرین کا خیال ہے کہ شریعت اسلامیہ معاذ اللہ ناقص ہے اور اس کی تکمیل یا اس میں تبدیلی کے لیے اجتہادکیا جائے گا۔علامہ اقبال اورڈاکٹر جاوید اقبال کا خیال یہ ہے کہ قرآن کے بعض مفصل احکام ایسے ہیں جو اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی تہذیب و تمدن کے لیے موزوں تھے ‘ آج کل کے زمانے میں ان احکامات کی پیروی ناقابل عمل ہے لہٰذا ان احکامات میں اجتہاد کرتے ہوئے انہیں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کر نا چاہیے۔ دو سرے الفاظ میں ہم ا سے شریعت کو ناقص قرار دیتے ہوئے اس کی تبدیلی کادعوی کرنے سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔ پس ان دو حضرات کے نزدیک اجتہادشرعی احکام کو معاصر تہذیب وتمدن کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنے کا نام ہے۔ا لطاف أحمد صاحب کاتصور اجتہاد یہ ہے کہ قرآن کے مجمل احکامات کی تشریح میں مروی ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے حالات کا حل پیش کرتی ہے لہذا آج ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے قرآن کے ان احکامات کی از سر نو تعبیر و تشریح کرنی ہو گی۔مثلاًوہ کہتے ہیں کہ قرآن نے زکوۃ کی ادائیگی کا حکم دیا ہے لیکن اس کے نصاب کو بیان نہیں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے عرف و رواج کو ملحوظ رکھتے ہوئے غنا کا ایک نصاب مثلاً ساڑھے سات تولے سونا‘ ساڑھے باون تولے چاندی‘ پانچ و سق غلہ وپھل اور مال مویشیوں کا نصاب وغیرہ مقرر کر دیاتھا ۔آج ہمیں اپنے زمانے کے ظروف و حالات کے مطابق غنا کی ایک تعریف کرتے ہوئے اس نصاب میں تبدیلی کرناچاہیے اور یہی اجتہاد ہے۔قرآن و سنت کے احکامات میں اس قسم کی تفریق کرناکہ قرآن کے مفصل احکامات تو دائمی ہیں جبکہ سنت کے مفصل احکامات وقتی و عارضی دور کے لیے تھے‘ کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے بلکہ شرعی دلائل اس نظریے کے خلاف قائم ہیں جیسا کہ ہم سابقہ سطور میں بیان کر چکے ہیں ۔قرآن اور سنت کے احکامات اپنے دوام کے اعتبار سے ایک جیسی حیثیت رکھتے ہیں لہذا سنت کے احکامات کو وقتی و عارضی قرار دینا شریعت کو ناقص قرار دینے کے مترادف ہے کیونکہ اس میں تو کسی کو بھی اختلاف
|