Maktaba Wahhabi

62 - 214
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے بعض حقوق و ذمہ داریاں تو قرآن و سنت کے ذریعے متعین کر دی ہیں جبکہ بقیہ حقوق و ذمہ داریوں کو اس آیت مبارکہ میں معاشرے کے عرف کے ساتھ متعلق کر دیاہے لہذا عرف کی تبدیلی سے یہ حقوق و ذمہ داریاں بھی تبدیل ہوتی رہیں گی‘ یعنی نص نے شروع ہی سے اپنے اندر ایسی لچک رکھی ہے کہ قیامت تک آنے والے احوال و ظروف کواپنے اندر سمیٹ لے۔ا سی طرح کسی شرعی حکم کی تطبیق یا اطلاق میں مصالح کا لحاظ تو رکھا جائے گا لیکن ان مصالح کی بنا پر شرعی احکام کو تبدیل نہیں کیا جائے گامثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں قحط سالی کے زمانے میں قطع ید کی حد کو ایک عارضی مدت کے لیے ختم کر دیا تھا لیکن معاملہ یہ نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک حد کو ہمیشہ کے لیے ساقط کر دیاہو بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ شرعی حکم کے اطلاق(application)میں کچھ وقتی موانع(restrictions)موجود تھے جن کی وجہ سے ان حالات میں وہ شرعی حکم لاگو نہیں ہو سکتا تھااور ’مانع ‘خود حکم شرعی ہی کی ایک قسم ہے نہ کہ کسی شرعی حکم کی تبدیلی کا نام ہے۔ا سی طرح اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مریض اور بوڑھے شخص پر زنا کی حد جاری کرنے کے لیے سو کوڑوں کی بجائے یہ حکم دیا کہ ایک ایسی شاخ لے کر اس کو ماردی جائے جس میں سو ٹہنیاں ہوں ۔یہاں بھی بنظر غائر دیکھیں تو سد الذرائع کی بنیاد پرشرعی حکم تبدیل نہیں ہوا بلکہ مریض کے لیے شرعی حکم پر عمل کرنے میں رخصت کا حکم جاری کیا گیا ہے اور رخصت ‘ عزیمت ہی کی طرح شرعی حکم کی ایک قسم ہے نہ کہ شرعی حکم کا تغیر و تبدل ہے جیسا کہ سفر کی حالت میں نماز میں قصر کرنے کی رخصت ہے اور یہ رخصت ایک علیحدہ سے حکم ہے۔ اس بحث سے ہمارا مقصود یہ ہے کہ مذکورہ بالا أحادیث سے ایسے قواعد أخذ کرنا در ست نہیں ہے کہ شارع نے چونکہ مصالح و مقاصد کی خاطر بعض صورتوں میں حکم تبدیل کر دیا ہے مثلاً مریض اور بوڑھے زانی کو سو کوڑوں کی بجائے ایک شاخ لے کر مار دی تو ہمیں بھی یہ حق حاصل ہے کہ مصالح و مقاصد کی خاطر حکم شرعی کو تبدیل کر دیں ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ ’ شار ع‘ تو ’شارع ‘ہے اس کاہر حکم ہی شریعت ہے۔ اس لیے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کا بوڑھے و مریض زانی کو ایک شاخ لے کر مار دینا بھی ایک شرعی حکم ہے جوامت کو یہ بتلاتا ہے کہ اس قسم کے زانی مجرم پر اس طرح کی سزا لاگو ہو گی۔ جبکہ مجتہد‘ مکلف ہے اس کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ شریعت میں مقاصد شریعت کے نام سے تبدیلی کرتا پھرے۔ ڈاکٹر عیاض بن نامی السلمی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’لا ینکر تغیر الفتوی بتغیر الأزمان: نص العز ابن عبد السلام‘ والقرافی‘ وابن القیم‘ وغیرھم علی أن الحکم أو الفتوی قد یتغیران فی المسألۃ الواحدۃ لأجل تغیر الأعراف والعادات والأزمان‘ ونحو ذلک مما لہ أثر فی الحکم۔وقد تو سع فی القاعدۃ بعض المتأخرین‘ ولم یقصروھا علی الأحکام التی ترجع إلی العرف والعادۃ۔وأنکرھا بعض العلماء لما فھم منھا العموم لجمیع الأحکام‘ أو لما فی ظاھرھا من الاحتمال الباطل الذی یوھم بأن الحکم فی المسألۃ الواحدۃ بعینھا قد یتغیر عند اللّٰہ جل وعلا بلا نسخ وحملوا ما یذکرہ العلماء من الأمثلۃ علی تغیر الأحکام لتغیر الزمان أو الأحوال علی أن الحکم الشرعی لم یتغیر‘ وإنما تخلف تعلقہ بالصورۃ المشابھۃ فی الظاہر للصورۃ السابقۃ لعدم تحقق المناط حیث کان موجودا فی الصورۃ السابقۃ وغیر موجود فی الصورۃ اللا حقۃ۔‘‘[1] ’’زمانے کے حالات کی تبدیلی سے فتاوی کے بدل جانے کاکوئی بھی انکار نہیں کرے گاجیسا کہ عز بن عبد السلام رحمہ اللہ ‘ قرافی رحمہ اللہ اور ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ نے اس بارے میں بحث کی ہے کہ ایک ہی مسئلے میں کوئی اجتہادی حکم یا فتوی ‘عادت‘ عر ف اور حالات یااجتہاد میں اثر انداز ہونے والی اس طرح کی بعض دو سری چیزوں کے بدل جانے سے تبدیل ہو جاتا ہے۔بعض متاخرین نے اس قاعدے میں تو سع اختیار کیا ہے اور اس کو صرف ان احکام تک محدود نہیں رکھاہے جو عرف و عادت کی طرف لوٹتے ہیں ۔جبکہ بعض علماء نے اس قاعدے کے تمام احکام کے لیے عام ہونے کے اندیشے کی بنا پر اس کا رد کیا ہے یا اس وجہ سے اس قاعدے کا رد کیا ہے کہ اس قاعدے میں یہ باطل وہم پیدا ہونے کا امکان موجود ہے کہ ایک ہی مسئلے میں اللہ کی شریعت بغیر کسی نسخ کے تبدیل ہو جاتی ہے اور جن مثالوں کو علماء کا پہلا طبقہ زمانے
Flag Counter