Maktaba Wahhabi

191 - 214
ہو کہ وہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے والا ہے تو یہ ایک ایسا شرک ہے کہ جس کامرتکب سزا کامستحق ہے۔علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص حق کو پہچان لے تو اس کے لیے اس حق کے خلاف کسی کی تقلید جائز نہیں ہے۔‘‘ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ جمہور کی رائے ضروری نہیں ہے کہ حق ہی ہو۔اگر ایسا ہوتا تو امت کے علماء کا ضرور اس بات پر بھی اتفاق ہوتاکہ جس مسئلے میں أئمہ اربعہ یا أئمہ ثلاثہ متفق ہوں تو وہ حق ہے اور اس کی مخالفت جائز نہیں ہے جبکہ امر واقعہ اس کے بالکل خلاف ہے۔اکثر و بیشتر مسائل میں ہم دیکھتے ہیں کہ امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کاقول ایک ہی ہوتا ہے جبکہ امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کسی دو سری رائے کے حامل ہوتے ہیں ۔کیا جن مسائل میں أئمہ ثلاثہ کا اتفاق ہو ‘ حنفیہ کوان مسائل میں ان أئمہ کے فتوی کاجبراً اس لیے پابند بنا دینا چاہیے کہ یہ جمہور کی رائے اور أقرب إلی الصواب ہے۔ پانچویں دلیل تقنین کی حرمت کے قائل علماء نے درج ذیل روایت سے بھی اس کے عدم جواز پر ا ستدلال کیاہے: ’’أخبرنا عمرو بن منصور قال حدثنا سعید بن ذؤیب قال حدثنا عبد الرزاق عن ابن جریج ولقد أخبرنی عکرمۃ بن خالد أن أ سید بن حضیر الأنصاری ثم أحد بنی حارثۃ أخبرہ أنہ کان عاملا علی الیمامۃ و أن مروان کتب إلیہ أن معاویۃ کتب إلیہ أن أیما رجل سرق منہ سرقۃ فھو أحق بھا حیث وجدھا ثم کتب بذلک مروان إلی فکتبت إلی مروان أن لنبی صلي اللّٰه عليه وسلم قضی بأنہ إذا کان الذی ابتاعھا من الذی سرقھا غیر متھم یخیر سیدھا فإن شاء أخذ الذی سرق منہ بثمنھا وإن شاء اتبع سارقہ ثم قضی بذلک أبوبکر وعمر وعثمان فبعث مروان بکتابی إلی معاویۃ وکتب معاویۃ إلی مروان إنک لست أن ولا أ سید تقضیان علی ولکنی أقضی فیما ولیت علیکما فأنفذ لما أمرتک بہ فبعث مروان بکتاب معاویۃ فقلت لا أقضی بہ ما ولیت بما قال معاویۃ۔‘‘[1] ’’ہمیں عمر بن منصور نے خبردی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں سعید بن ذؤیب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عبد الرزاق نے ابن جریج سے خبر دی ہے۔انہوں نے کہا‘ مجھے عکرمہ بن خالد نے خبر دی ہے کہ أ سید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور بنو حارثہ کے ایک شخص نے ان کو بتایا ہے کہ حضرت أ سیدبن حضیر رضی اللہ عنہ یمامہ کے گورنر تھے۔ پس مروان نے ا سید بن حضیر رضی اللہ عنہ کی طرف یہ خط لکھا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے میری طرف یہ لکھ بھیجا ہے کہ جس شخص کا بھی کوئی مال چوری ہوجائے تو وہ شخص اس مال کا سب سے زیادہ حقدار ہے جہاں بھی وہ اس کو پالے۔ پس مروان نے یہی خط میری طرف بھی لکھ بھیجا تو میں نے مروان کو لکھا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ اگر کسی شخص نے بغیر کسی تہمت اور اپنے سر لیے چور سے وہ مال خرید لیا تھاتو اب اصل مالک(یعنی جس کی وہ چیز چوری ہوئی تھی)کو یہ اختیارحاصل ہوگا کہ اگر چاہے تو اس چوری شدہ مال کو اس کی قیمت کے بدلے وا پس لے لے اور اگر چاہے تو چور کا پیچھا کرے۔پھر ا سی حدیث کے مطابق فیصلہ حضرت أبوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے بھی کیا۔ پس مروان نے میرا یہ خط حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیج دیا۔ پس حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مروان کی طرف یہ جوابی خط لکھا کہ تم اور أ سید میرے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر رہے بلکہ میں تمہیں یہ حکم اس بنیاد پرجاری کر رہا ہوں کہ میں تم دونوں پر حکمران بنایاگیاہوں ۔ پس جو حکم میں نے تمہیں دیا ہے ا سے نافذ کرو۔ پس مروان نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ حکم میری طرف بھیج دیا تو میں نے کہا: جب تک میں یہاں کا گورنر ہوں ‘اپنی امارت میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق فیصلے نہیں کروں گا۔‘‘ اس روایت سے بھی یہ معلوم ہوا کہ اگر حکمران کی طرف سے کسی قانون کا الزام در ست ہوتا تو حضرت أ سید بن حضیر رضی اللہ عنہ اس سے انکار نہ کرتے۔لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے محسوس ہوتا ہے کہ اس دورمیں بھی حکمران کی طرف سے کسی قانون کے الزام کی سوچ ضرور موجود تھی۔
Flag Counter