Maktaba Wahhabi

67 - 214
نوع من تحقیق المناط المتقدم الذکر لأنہ ضربان أحدھما ما یرجع إلی الأنواع لا إلی الأشخاص کتعیین نوع المثل فی جزاء الصید ونوع الرقبۃ فی الکفارات وما أشبہ ذلک وقد تقدم التنبیہ علیہ والضرب الثانی ما یرجع إلی تحقیق مناط فیما تحقق مناط حکمہ فکان تحقیق المناط علی قسمین۔تحقیق عام وھو ماذکر وتحقیق خاص من ذلک العام۔‘‘[1] ’’دو سری قسم کا اجتہادجو ختم ہو سکتاہے وہ تین طرح کا ہے ۔ اس کی پہلی قسم تنقیح المناط کہلاتی ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی نص میں موجود حکم کے معتبر وصف کے ساتھ ساتھ غیر معتبر اوصاف کا تذکرہ بھی ہو اور اجتہاد کے ذریعے ان اوصاف کی چھان پھٹک کر نے کے بعدحکم کے لغواوصاف کو علیحدہ کرتے ہوئے معتبر وصف(یعنی علت)کا تعین کیاجائے ۔۔۔ اس کی دو سری قسم کو تخریج المناط کہتے ہیں ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ نص میں حکم کی علت موجود نہ ہو اور تحقیق سے منصوص حکم کی علت معلوم کی جائے اس کو اجتہاد قیا سی بھی کہتے ہیں اور یہ فقہاء کے ہاں معروف ہے۔ اور تیسری قسم پہلی قسم یعنی تحقیق المناط ہی کی ایک قسم ہے ۔تحقیق المناط کی دو قسمیں ہیں ایک قسم تو انواع سے متعلق ہے نہ کہ اشخاص سے ‘جیسا کہ حالت احرام میں شکار کیے گئے جانور کے مثل کی نوع تلاش کرنا یا کفارے میں کس نوع کی گرد ن آزاد کرنی ہے ‘ اس کا اور اس جیسی چیزوں کاتعین کرنا۔اور سابقہ اقسام میں اس کا ذکر گزر چکاہے ۔تحقیق مناط کی دو سری قسم وہ ہے کہ جس میں اس چیز میں علت کو ثابت کیا جاتاہے کہ جس میں حکم کی علت موجود ہو۔ پس تحقیق مناط کی دو قسمیں ہوئیں : ایک عام ہے جس کا ذکر پہلے ہو چکا اور دو سری خاص ہے۔‘‘ مختلف حالات و اشخاص کے اعتبار سے اجتہاد کا شرعی حکم حالات و زمانے کی رعایت اور اشخاص کے علمی مقام و مرتبہ کے پہلو سے اجتہاد کا حکم مختلف مسائل میں مختلف افراد کے اعتبار سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’قال العلماء: إذا وقعت حادثۃ لشخص‘ أو سئل عن حادثۃ‘ فإن حکم الاجتھاد فی حقہ یکون فرضاً عینیاً‘ وقد یکون فرضاً کفائیاً‘ وقد یکون مندوباً‘ وقد یصیرحراماً۔‘‘[2] ’’علماء نے کہا ہے کہ جب کسی شخص کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آتا ہے یا کسی مسئلے کے بارے سوال کیاجاتاہے تو اس شخص کے حق میں اجتہادکا حکم بعض اوقات فرض عین کا ہوتا ہے اور بعض اوقات فرض کفایہ کا‘ بعض صورتوں میں اجتہاد مندوب ہوتا ہے تو بعض حالات میں حرام ہو گا۔ ‘‘ ا سی طرح ڈاکٹر عبدالکریم نملۃ حفظہ اللہ نے بھی اجتہاد کی تین قسمیں بیان کی ہیں ۔فرض‘ مندوب اور حرام اجتہاد۔’فرض‘ اجتہاد کے بارے لکھتے ہیں : ’’ یکون الاجتھاد فرض عین فی حالتین: الحالۃ الأولی: اجتھاد المجتھد فی حق نفسہ فیما نزل بہ‘ لأن المجتھد لا یجوز أن یقلد غیرہ فی حق نفسہ‘ ولا فی حق غیرہ۔الحالۃ الثانیۃ: اجتھاد المجتھد فی حق غیرہ إذا تعین علیہ الحکم فیہ بأن ضاق وقت الحادثۃ فإنہ یجب علی الفور‘ لأن عدم الاجتھاد یقتضی تاخیر البیان عن وقت الحاجۃ‘ وھو ممنوعاً شرعاً۔ ثانیاً:یکون الاجتھاد فرض کفایۃ عندما تنزل حادثۃ بأحد‘ فاستفتی أحد العلماء‘ فإن الوجوب یکون فرضاً علیھم جمیعاً‘ وأخصھم بفرضہ‘ المخصوص بالسؤال عنھا‘ فإن أجاب واحد منھم سقط الفرض عن جمیعھم‘ وإن أم سکوا مع ظھور الصواب لھم أثموا‘ وإن أم سکوا مع التبا سہ علیھم عذروا۔‘‘[3] ’’ اجتہاددو صورتوں میں فرض عین ہو گا۔ پہلی صورت تو میں کسی مجتہد کا ذاتی مسئلے میں اجتہاد فرض عین ہو گا کیونکہ مجتہد کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ مجتہد ہوتے ہوئے اپنے یا کسی اور کے مسئلے میں کسی غیر کی تقلید کرے۔دو سری صورت یہ ہے کہ مجتہد کسی اور شخص کے مسئلے میں
Flag Counter