ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اگر وہ کتاب اللہ میں نہ ہو ۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں سنت ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کروں گا۔اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایا: اگر وہ سنت ر سول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ ہو۔حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:میں اپنی رائے بنانے میں(قرآن و سنت میں )اجتہادکروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں کہ جس نے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے ر سول کو اس بات کی توفیق دی۔۔۔امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ہم اس حدیث کی صرف ا سی سند سے واقف ہیں اور میرے نزدیک اس کی ا سناد متصل نہیں ہے ۔أبو عون الثقفی کا نام محمد بن عبید اللہ ہے۔‘‘
بعض مفکرین نے اس روایت کے الفاظ’أجتھد رأیی‘ سے یہ ا ستدلال کیا ہے کہ اجتہادمحض ایک عقلی رائے کا نام ہے۔ہم اس روایت کے بارے میں سابقہ صفحات میں یہ بحث کر چکے ہیں کہ یہ روایت معناً ’صحیح‘ ہے جبکہ اس کے الفاظ کا ثبوت ایک مشکل أمر ہے۔ لہٰذا اس روایت سے من جملہ یہ مسئلہ أخذ کرنا تودر ست ہو گا کہ کسی شرعی مسئلہ کو معلوم کرنے کے تین ذرائع ہو سکتے ہیں یعنی قرآن ‘ سنت اور اجتہاد۔لیکن اس روایت کے الفاظ سے کوئی نکتہ أخذ کرناصحیح نہ ہو گا۔
لہٰذا اس حدیث کے الفاظ سے یہ ا ستدلال کرنا کہ اجتہادتو محض ذاتی رائے کا نام ہے اور یہ قرآن و سنت کے علاوہ انسان کی عقلی رہنمائی ہے‘ بالکل غلط اور باطل عقیدہ ہے۔اجتہاد کی جتنی بھی تعریفیں ہم نے أئمہ سلف کے حوالے سے پیش کی ہیں ان سب میں بنیادی نکتہ یہی ہے کہ قرآن و سنت اور ان سے ماخوذ مصادر کی روشنی میں حکم شرعی کی تلاش کو اجتہاد کہتے ہیں ۔ محض عقلی یا ذاتی رائے حکم شرعی نہیں ہوتی ۔ا سی طرح اس حدیث کے الفاظ سے یہ ا ستدلال کرنا کہ پہلے قرآن میں کسی مسئلے کا حل تلاش کیاجائے گا اور اگر قرآن میں نہ ہو تو پھر سنت میں دیکھا جائے گا‘بھی غلط ہے کیونکہ کسی مسئلے کے حل کی تلاش میں قرآن و سنت کو ایک ساتھ رکھا جائے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک دو سرے کا بیان ہیں ۔ ا سی طرح اس حدیث کے الفاظ سے یہ ا ستدلال کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ بہت سے احکامات کے بارے میں قرآن و سنت خاموش ہیں اور ان مسائل میں اصل مصدر و مأخذ انسان کی ذاتی رائے و عقل ہے۔خلاصہ کلام یہی ہے کہ اس حدیث کا معنی صحیح ہے لیکن اس کی سند یا الفاظ اس قابل نہیں ہیں کہ ان سے دین کے انتہائی اہم و بنیادی مسائل مثلاًانسانی عقل و رائے بھی مصدر شریعت ہے ‘ کا تعین کیاجائے۔
غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی شرعی حیثیت
فعل ِ اجتہاد کا شرعی حکم کیا ہے یعنی اجتہاد کرنا فرض ہے ‘ مستحب ہے یا ضرورت ہے وغیرہ۔اہل الرائے کے نزدیک اجتہاد ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے اور ضرورت ہو یا نہ ہو‘ اجتہاد ہو گا لیکن یہ حضرات اس میں اتنا فرق کر لیتے ہیں کہ ضرورت کے وقت اجتہاد فرض ہو گا جبکہ بغیر ضرورت کے مستحب ہو گاجبکہ اہل الحدیث یعنی محدثین کانقطہ نظر اس سے برعکس ہے۔ ان کے نزدیک اجتہاد ایک وقتی ضرورت ہے جب کوئی مسئلہ درپیش آئے گا تو اجتہاد کیا جائے گا اور جب تک کوئی حادثہ و قوع پذیر نہ ہوا ہو تو اس کے بارے میں فرضی قیاس آرائیاں کرتے ہوئے اجتہاد کرنا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف بھی یہی ہے۔ ان کے نزدیک اجتہاد ایک ضرورت ہے جو نئے پیش آمدہ مسائل میں شرعی رہنمائی کی تلاش کے لیے کیاجاتاہے اور جب تک ضرورت نہ ہوگی ‘اجتہاد بھی نہ ہوگا۔امام شافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ونحکم بالاجماع ثم القیاس وھو أضعف من ھذا ولکنھا منزلۃ ضرورۃ لأنہ لا یحل القیاس والخبر موجود کما یکون التیمم طھارۃ فی السفر عند الإعواز من الماء ولا یکون طھارۃ إذا وجد الماء إنما یکون طھارۃ فی الإعواز وکذلک یکون ما بعد السنۃ حجۃ إذا أعوز من السنۃ۔‘‘[1]
’’اور ہم اجماع کے ذریعے حکم لگاتے ہیں پھر قیاس کرتے ہیں اورقیا س‘ اجماع کی نسبت کمزوردلیل ہے لیکن یہ ضرورت کی جگہ ہو گا کیونکہ یہ اس وقت جائز نہیں ہوتا جبکہ خبر موجود ہوجیساکہ تیمم کا معاملہ ہے سفر میں جب پانی کا ملنا دشوار ہو اس وقت تیمم طہارت کا باعث ہو گا لیکن پانی کی موجودگی میں تیمم طہارت کا ذریعہ نہ بنے گاا سی طرح قیاس بھی سنت کی غیر موجودگی میں اس کے بعد حجت ہو گا۔‘‘
|