پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ایک لازمی أمر ہے کہ اجتہاد کے اس دائرے میں اجتماعی اجتہاد ہونا چاہیے تاکہ افراد کی خواہش نفس اور ان کی خطاؤں سے بچا جا سکے۔ علاوہ ازیں اجتماعی اجتہاد میں مستنبط شدہ حکم ر سوخ فی العلم رکھنے والے علماء کی ایک بڑی جماعت کی دقیق کوششوں اور و سیع مناقشوں پر مبنی ہوتا ہے۔‘‘
أ ستاذ علی ح سب اللہ حفظہ اللہ اس قسم کے اجتہادکی مثالیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ومما یدخل فی باب تغیر الأحکام بتغیر الأحوال ما ذکرناہ عن عمر رضی اللّٰہ عنہ من إیقاع الطلاق الثلاث بلفط واحد ثلاثاً علی خلاف ما کان علیہ العمل قبلہ‘ وإ سقاطہ حد ال سرقۃ فی عام المجاعۃ وإ سقاطہ سھم المؤلفۃ قلوبھم ومن قبل نھی ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم عن إقامۃ الحدود فی الغزو خشیۃ أن یفرمن علیہ الحد إلی بلاد العدو أو تضعف شوکۃ المسلمین فی القتال۔‘‘[1]
’’أحوال و ظروف کے تغیر سے أحکام شرعیہ کی تبدیلی کی مثالوں میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک ہی لفظ سے طلاق ثلاثہ کے وقوع کا فتوی جاری کرنا تھا جبکہ اس سے پہلے اس کے خلاف عمل جاری تھا۔ ا سی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قحط کے سال چوری کی حد ساقط کر دی تھی۔ ا سی طرح انہوں نے مؤلفین قلوب کا حصہ بھی ختم کر دیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران جنگ حدود کے نفاذ سے منع فرمایا تاکہ جس شخص پر حد قائم کی جانی ہے‘ بھاگ کر دشمن سے نہ جا ملے یا وہ مسلمانوں کی قوت کی کمزوری کا باعث نہ بن جائے۔‘‘
عرف کے تغیر میں اجتماعی اجتہاد
عرف کے تبدیل ہو نے سے فتوی بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اگر کسی زمانے میں ایک خاص عرف کی بنیاد پر کوئی شرعی حکم جاری کیا گیا اوراگر وہ عرف بدل گیا توحکم بھی بدل جائے گا۔ڈاکٹر وہبہ الزحیلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ومن البدھی أن العرف یتغیر بتغیر الزمان والمکان‘ فکان من الواجب تغیر الأحکام بناء علیہ‘ لھذا قال الفقھاء : تتغیر الأحکام بتغیر الزمان ‘ ومن عباراتھم المشھورۃ: ھذا اختلاف عصر وزمان‘ لا اختلاف حجۃ وبرھان۔‘‘[2]
’’یہ بات بدیہی طور پر معلوم ہے کہ زمان و مکان کی تبدیلی سے عرف بھی بدل جاتا ہے۔ پس یہ بات لازم ہے کہ عرف کی تبدیلی سے احکام شرعیہ بھی تبدیل ہوں ۔ ا سی لیے فقہاء نے کہا ہے : زمانے کی تبدیلی سے أحکام بھی بدل جاتے ہیں ۔ سلف کی معروف عبارتوں میں سے ایک عبارت یہ بھی ہے: یہ زمانے و وقت کا اختلاف ہے نہ کہ حجت و برہان کا۔‘‘
عرف کی تبدیلی سے حکم شرعی کی تبدیلی کا یہ معنی و مفہوم بالکل نہیں ہے کہ اس طرح حکم شرعی منسوخ ہو جاتا ہے بلکہ یہ درحقیقت محل ِ اجتہاد کی تبدیلی ہے جو ایک نئے حکم کی متقاضی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ولا یعتبر تغیر الأحکام المبنیۃ علی العرف نسخاً للشریعۃ‘ لأن الأحکام فی حقیقتھا باقیۃ ‘ وإنما تغیر محلھا الذی تنزل علیہ‘ بحیث لم یعد متوافراً فیہ شروط التطبیق‘ فطبق حکم آخر علیہ‘(( ومعنی ذلک أ ن حالۃ جدیدۃ قد طرأت تستلزم تطبیق حکم آخر‘ أو أن الحکم الأصلی باق ولکن تغیر العادۃ ا ستلزم توافر شروط معینۃ لتطبیقہ‘ فالشرط فی الشھود العدالۃ‘ والعدالۃ الظاھرۃ کانت کافیۃ لتحقیقھا‘ فلما کثر الکذب ا ستلزم ھذا الشرط للتزکیۃ۔‘‘[3]
’’عرف پر مبنی أحکام شرعیہ کی تبدیلی کا مطلب ان کا نسخ نہیں ہے کیونکہ حقیقت میں حکم شرعی باقی رہتا ہے اور تبدیل تو صرف اس کا وہ محل
|