Maktaba Wahhabi

130 - 214
طور پریہ سب علماء مجتہد مطلق کے درجے تک پہنچ جاتے ہیں ۔‘‘ اجتماعی اسلامی فقہ کا حصول اجتماعی اجتہاد کا ایک اہم محرک یہ بھی ہے کہ اس عمل کے ذریعے مدون ہونے والی فقہ’ اسلامی فقہ‘ کہلائے گی ۔ اس اجتماعی فقہ کے مسلمانوں کی معاشرتی زندگی پر بہت گہرے اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ باہمی منافرت کی جگہ محبت و الفت کی فضا پروان چڑھے گی۔ مختلف مکاتب فکر کے علماء اور ان کے متبعین کے لیے ہمددری و أخوت کا جذبہ نمایاں رہے گا۔ عامۃ الناس کا علماء کے طبقے پر اعتماد بڑھے گا اور اسلام کے بارے میں سیکولر عناصر کا یہ اعتراض رفع ہو جائے گا کہ کون سا اسلام در ست ہے؟ حنفی‘ شافعی‘ مالکی یا حنبلی؟۔ ڈاکٹر محمود أحمد غازی لکھتے ہیں : ’’ دور جدید میں اسلام کے سیا سی نظام کے بارے میں غور و خوض ہو رہا ہے۔ اسلام کی د ستوری فکر پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں ۔ مختلف مسلم ممالک میں د ستوری تصورات پر مباحثے ہو رہے ہیں ۔۔۔یہ کام پاکستان میں بھی ہو رہا ہے۔ مصر اور دو سرے عرب ممالک میں بھی ہو رہا ہے۔ ان میں سے کسی کام کو حنفی یا شافعی یا حنبلی یا مالکی مسلک کی حدود میں محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت دنیائے اسلام میں ’’اسلامی د ستور سازی‘‘ کا کام ہو رہاہے۔’’حنفی د ستور سازی‘‘ یا’’مالکی‘‘ اور ’’حنبلی د ستور سازی‘‘ کا کام نہیں ہو رہا ہے۔پاکستان میں اگر اسلامی د ستور کی طرف پیش رفت ہوئی ہے تو وہ اسلامی د ستور کی طرف پیش رفت ہوئی ہے‘ کسی حنفی یا مالکی د ستور کی طرف پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔۔۔ اس لیے فقہ اسلامی کا یہ نیا ارتقاء اور یہ نیا رجحان م سلکی نہیں ‘ بلکہ م سلکی حدود سے ماوراء ہے۔ اس لیے آئندہ آنے والے سال‘ عشرے یا صدی م لکوں کی صدی نہیں ہو گی بلکہ یہ فقہ اسلامی کی مشترک صدی ہو گی۔‘‘[1] ڈاکٹر محمود أحمد غازی نے اس فقہ کو ’کو سمو پولیٹن ‘فقہ کا نام دیا ہے۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں : ’’ اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیائے اسلام میں باہمی مشاورت اور اشتراک عمل سے اجتہادی کام کیا جا رہا ہے۔ اس اجتماعی اجتہاد کے نتیجہ میں فقہی مسالک کی حدود مٹ رہی ہیں ۔ ایک نئی فقہ وجود میں آ رہی ہے جس کو نہ فقہ حنفی کہہ سکتے ہیں نہ مالکی‘ نہ حنبلی‘ نہ جعفری۔ بلکہ اس کو اسلامی فقہ ہی کہا جائے گا۔ میں اس کے لیے Cosmopolitan Fiqhیعنی عالمی یا ہر دی سی فقہ کی اصطلاح استعمال کرتا ہوں ۔‘‘[2] ایک تو جدید مسائل میں اجتماعی اجتہاد کے ذریعے اسلامی فقہ کا حصول ہے‘ا سی طرح مذاہب أربعہ اور اہل الحدیث کے کبار علماء پر مشتمل ایک ایسی فقہی مجلس تشکیل دینی چاہیے جو سابقہ فقہی اقوال میں اجتہاد کرتے ہوئے ان میں راجح و مرجوح کا تعین کرے اور جمیع فقہی مذاہب سے ا ستفادہ کرتے ہوئے فقہ اسلامی کا ایک جامع انسائیکلو پیڈیا تیار کیا جائے۔ دو سری بات یہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کی ایک جماعت اجتماعی اجتہاد کے لیے جمع ہو گی تو وہ کسی ایک مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے یا ایک ہی فقہ کے أصول و فروع پر اپنے اجتہاد کی بنیاد نہیں رکھے گی بلکہ اجتہاد کی اس قسم میں حنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی‘ ظاہری اور اہل الحدیث کے مصادر علمیہ سے یکساں طور پر ا ستفادہ کیا جائے گایعنی سلف صالحین کے جمیع فقہی ذخیرے کو ایک ہی فقہ شمار کرتے ہوئے اس سے ا ستفادہ ممکن ہو گا۔ڈاکٹر طاہر منصوری لکھتے ہیں : ’’اجتماعی اجتہاد کی تحریک کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ اس میں تمام فقہی مسالک اور فقہاء کرام کے فقہی ذخیرہ کو بڑی حد تک مشترکہ علمی ورثہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں تمام فقہاء کرام کے اجتہادات و فرمودات سے یکساں ا ستفادہ کیا جاتاہے۔ نئے مسائل کے حل میں کسی خاص فقہی مسلک پر انحصار کرنے کی بجائے تمام مسالک کے فقہی ذخائر سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور وہ نقطہ نظر اختیار کیا جاتا ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات سے مطابقت رکھتا ہو اور بندگان خدا کے مصالح اور عصر حاضر کے تقاضوں سے زیادہ ہم آہنگ ہو۔ اس طرح اجتماعی اجتہاد کے نتیجہ میں ایک نئی اجتماعی فقہ وجود میں آ رہی ہے جو پوری امت مسلمہ کا مشترک علمی‘ فکری اور قانونی سرمایہ ہے۔‘‘[3]
Flag Counter