Maktaba Wahhabi

108 - 214
مجتھد أو غیرہ وقد تکون فی بعض المسائل الدینویۃ أو العسکریۃ أو الإقتصادیۃ أو الإداریۃ أوالإجتماعیۃ أو التربویۃ والثقافیۃ أو اللغویۃ ونحوھا مما لایتطلب الإجماع۔‘‘[1] ’’اور جہاں تک اجتماعی شوری کا معاملہ ہے نہ کہ انفرادی تو اس شوری کا دائرہ کار اجتماعی اجتہاد سے بھی عام ہے۔ کیونکہ شوری بعض اوقات مجتہدین سے ہوتی ہے اور بعض اوقات ان کے علاوہ سے۔ ا سی طرح شوری بعض اوقات دینی‘ عسکری‘ اقتصادی‘ انتظامی‘ معاشرتی‘ تربیتی‘ ثقافتی اور لغوی وغیرہ جی سے مسائل میں بھی منعقد ہوتی ہے کہ جو اجماع کے متقاضی نہیں ہیں ۔‘‘ عدالتی فیصلوں میں اجتماعی اجتہاد ڈاکٹرأحمد رئیسونی حفظہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ دور نبوت اور خلفائے راشدین کے زمانے میں اجتماعی و شوارئی اجتہاد کے تین اہم میدان تھے۔ ایک سیا سی مسائل میں شوری‘ دو سرا احکام شرعیہ کے استنباط میں اور تیسرا عدالتی فیصلوں میں ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’فمنذ العصر النبوی وعصر الصحابۃ‘ بدأ العمل بالاجتھاد الجماعی‘ بعدۃ أشکال وفی عدۃ مجالات اجتھادیۃ۔ولعل العنوان الجامع لأشکال الاجتھاد الجماعی ومجالاتہ فی ھذہ الحقبۃ ھو:((الشوری))‘ وخاصۃ فی مجالات الثلاث:۱۔الشوری فی تدبیر القضایا السیا سیۃ وغیرھا من المشاکل والقضایا العامۃ۔۲۔ الشوری فی استنباط الأحکام الشرعیۃ التی لا نص فیھا۔۳۔ الشوری فی الأحکام القضائیۃ۔وکل المشاورات التی کانت تتم فی الصدر الأول‘ فی ھذہ المجالات الثلاثۃ‘ کانت فی الحقیقۃ عبارۃ عن اجتھادات جماعیۃ۔فکلھا کانت بحثاًعن الأحکام الشرعیۃ‘ وعن الحلول الشرعیۃ۔وکلھا کانت بحثاً عن دلیل الشرع‘ وعن مقتضی الشرع۔وھذا ھو عین الاجتھاد۔وبالنظر إلی وقوع ھذہ الاجتھادات بھیئۃ تشارکیۃ تشاوریۃ‘ فھی أیضاً عین((الاجتھاد الجماعی))۔‘‘ [2] ’’ اجتماعی اجتہاد کے عمل کی ابتداء دور نبوت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے مختلف صورتوں اور اجتہادی میدانوں میں ہوئی۔ اس زمانے میں اجتماعی اجتہاد کی مختلف صورتوں اور دائرہ کار کے لیے ایک جامع عنوان’شوری‘ ہے۔ یہ اجتماعی اجتہاد یا شوری خاص طور پر تین میدانوں میں ہوتی تھی: ۱۔ سیا سی اور دیگر عمومی مسائل و مشکلات کی تدبیر میں مشاورت۔۲۔ غیر منصوص مسائل میں استنباط احکام کے لیے اجتہاد۔۳۔ عدالتی فیصلوں میں اجتماعی شوری۔ صدر أول میں ان تین میدانوں میں جو بھی مشاورت ہوتی تھی وہ درحقیقت اجتماعی اجتہاد ہی تھا۔ اس مشاورت میں کل بحث أحکام شرعیہ اور ان کے شرعی حل کے متعلق ہوتی تھی۔ یہ ساری تحقیق شرعی دلیل اور اس کے مقتضی کی تلاش کے لیے ہوتی تھی۔ اور یہی تو عین اجتہادہے۔ ا سی طرح ان اجتہادات کا ایک مشترکہ مشاورتی ادارے کی صورت میں وقوع پذیر ہونا ہی تو عین ’اجتماعی اجتہاد‘ ہے۔‘‘ کسی اسلامی ریا ست میں اسلامی قانون سازی کے باوجود بعض مقدمات اس قدر پیچیدہ یا اہم یا عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جن میں کسی ایک جج کا فیصلہ کفایت نہیں کرتا۔ ایسے مسائل میں قاضیوں یا ججوں کی ایک کمیٹی مل کر باہمی مشاورت سے کوئی فیصلہ صادر کرے تو اس میں صحت کے امکان بھی بڑھ جاتے ہیں اور عامۃ الناس کے لیے بھی یہ عمل اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔ پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت کے نام سے باقاعدہ ایک ایسا ادارہ موجود ہے جو پیچیدہ و عمومی نوعیت کے مقدمات میں اجتماعی اجتہاد کا فریضہ سر انجام دے سکتا ہے‘ لیکن ایک تو اس ادارے کو فعال کرنے کی ضرورت ہے اور دو سرا اس میں اجتہادی صلاحیت کے اہل علماء و جج حضرات کو جگہ دینی چاہیے۔ ۲۳ د سمبر ۱۹۹۹ء کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے اپلیٹ بنچ نے متفقہ طور پر ایک نہایت ہی اہم فیصلہ جاری کیا‘ جس کے مطابق معاشرے میں جاری ہر طرح کے تجارت و صرفی لین دین کو قرآن و سنت سے متصادم ہونے کی وجہ سے حرام اور ناجائز قرار دیا۔ڈاکٹر ظفر علی راجا لکھتے ہیں :
Flag Counter