وشرعہ لعبادہ ولا دین لہ سواہ؟ أو یقول إن دین اللّٰہ الذی شرعہ لعبادہ خلافہ؟ أو یقول لا أدری؟ ولا بد للقاضی من قول ھذہ الأقوال ولا سبیل لہ إلی الأول قطعاً فإن دین اللّٰہ الذی لا دین لہ سواہ لاتسوغ مخالفتہ وأقل درجات مخالفہ أن یکون من الآثمین والثانی لا یدعیہ فلیس لہ ملجأ إلا الثالث؟ فیا للعجب! کیف تستباح الفروج والدماء والأموال والحقوق وتحلل وتحرم بأمر أحسن أحوالہ وأفضلھا لاأدری؟۔‘‘[1]
’’جب قاضی معین قانون کے مطابق فیصلہ کرے گا تو کیا وہ یہ کہے گا کہ یہ نافذ شدہ قانون اللہ کے اس دین کے مطابق ہے جس کے ساتھ اللہ نے اپنے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور اس کے مطابق اپنی کتاب نازل کی اور اس کو اپنے بندوں کے لیے مقرر کیااور جس کے سواء کوئی دین قابل قبول نہیں ہے یا قاضی یہ کہے گا کہ اللہ کا دین جو اس نے اپنے بندوں کے لیے مقرر کیا ہے ‘ اس قانون کے خلاف ہے یا وہ یہ کہے گا کہ میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کیا معاملہ ہے؟۔ پس قاضی کے لیے ان اقوال میں سے ایک قول کو اختیار کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ پس قاضی کے لیے پہلے قول کو اختیار کرنے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے کیونکہ اللہ کا وہ دین کہ جس کے سواء کوئی دین نہیں ہے‘ اس کی مخالفت کسی صورت جائز نہیں ہے اور اس کی مخالفت کرنے والے کا کم تر درجہ یہ ہو گا کہ وہ گناہ گاروں میں شمار ہو( تو کیا معین قانون کے خلاف رائے رکھنے والا کوئی عالم دین بھی گناہ گار کہلایا جا سکتا ہے)۔ا سی طرح قاضی دو سرے قول کو بھی اختیار نہیں کرے گا؟ پس تیسرے قول کو اختیار کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ پس کس قدر قابل تعجب بات ہے! کہ ایک ایسے امر کی بنیاد پر شرم گاہوں ‘ خون‘ اموال اور حقوق کو کیسے مباح قرار دیا جائے گا اور کیسے کسی شیء کو حلال یا حرام ٹھہرایا جائے گا کہ جس کے بارے میں بہترین و راجح قول یہ ہو کہ ’میں نہیں جانتا‘۔(یعنی جہالت کی بنیاد پر اتنے بڑے فیصلے کیسے کیے جا سکتے ہیں ؟)۔‘‘
ساتویں دلیل
نصوص شرعیہ کی تعبیر و تشریح میں علماء کے مناہج مختلف ہوتے ہیں ۔راجح فقہی اقوال کی تدوین و تقنین کی صورت میں قانون کے مدوِّن کو جن حالات سے وا سطہ پڑا ہو گا وہ ان کا لحاظ رکھتے ہوئے قانون سازی کرے گا۔جبکہ خارج میں مثال کے طور پر ایک ہی جرم کے ارتکاب میں مجرمین کی نفسیات‘ ان کا ماحول‘ جرم میں خارجی عناصرکا عمل دخل اور اسباب جرم وغیرہ مختلف ہوتے ہیں ۔ پس ایک ہی جرم سے متعلق مختلف حالات‘ ا سباب‘ نفسیات اور پس منظر میں ہر مجرم پر ایک ہی سزا لاگو کرنا انصاف کا تقاضا نہیں ہے۔عدم تقنین کی صورت میں ایک قاضی اس قانونی جمود یا تنگی کا پابندنہیں ہوتا ہے۔’أبحاث ھیئۃ کبار العلماء‘میں ہے:
’’إن إیجاد کتاب یشمل علی قول واحد ھو الراجح فی نظر من اختارہ یکون موحد الأرقام مسلسل المواد لا یمکن أن یقضی علی الخلاف ویوجد الاتفاق فی الأحکام فی کل القضایا لاختلاف القضاۃ فی مدارکھم وفی فھم المواد العلمیۃ ومدی انطباقھا فی القضایا التی ترفع لھم ولاختلاف ظروف القضایا وما یحیط بھا من أمارات ویحف بھا من أحوال فقد اختلف الناس فی مدلول بعض النصوص الشرعیۃ من الکتاب والسنۃ مع وضوحھا وجلائھا وعلم مصدرھا الذی لیس علمہ کعلم من یختار القول الراجح المراد۔‘‘[2]
’’اگر ایک ہی فقہی قول پر مشتمل کوئی قانونی کتاب مرتب کی جائے تو وہ قول اس کی نظر میں تو راجح ہو گا جس نے اس کتا ب کو مرتب کیاہے(دو سرے علماء کی نظر میں نہیں )۔ اسی طرح یہ کتاب یکساں ترقیم اور مسلسل مواد پر مشتمل ہو گی اور اس کے خلاف فیصلہ دینا ممکن نہ ہو گا۔ا سی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ تمام مقدمات کے فیصلوں میں یکسانیت پائی جائے کیونکہ قاضیوں کے حو اس خمسہ اور علمی مواد کو سمجھنے اور
|