Maktaba Wahhabi

125 - 214
اہم سبب انفرادی اجتہاد بھی ہے۔‘‘ ہمارے خیال میں شیخ کی یہ رائے در ست نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اجتماعی اجتہاد کی اہمیت مسلم ہے لیکن اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ اجتماعی اجتہاد کی مدح سرائی میں انفرادی اجتہاد‘ جو کہ اس کی أصل ہے‘ ا سی کا رد کرنا شروع کر دیا جائے اور بغیر کسی دلیل کے فرقہ وارانہ تعصب کی بنیاد أئمہ سلف کے انفرادی اجتہاد کو قرار دیا جائے۔ ڈاکٹر شعبان محمد ا سماعیل حفظہ اللہ ‘ شیخ عبد الوہاب خلاف رحمہ اللہ کی اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’فوصف الاجتھاد الفردی بالفوضی فیہ مبالغۃ من جھۃ‘ و من جھۃ أخری فیہ إنکار لمجھور عدید من العلماء المبرزین فی الاجتھاد الفردی عبر العصور المختلفۃ أمثال: أبی حنیفۃ ‘ ومالک‘ والشافعی‘ وأحمد بن حنبل‘ واللیث بن سعد‘ وأبی ثور وابن تیمیۃ‘ وابن القیم‘ والشوکانی‘ وغیر ھؤلاء من المجتھدین الذین أثروا الحرکۃ الفکریۃ بما لا یمکن إنکارہ۔فالقول بأھمیۃ الاجتھاد الجماعی لا یعنی إنکار الاجتھاد الفردی بحال من الأحوال۔‘‘[1] ’’ انفرادی اجتہاد کو لا قانونیت قرار دینے میں ایک اعتبار سے مبالغہ ہے۔دو سرے پہلو سے اس بیان میں مختلف زمانوں کے نامور علمائے مجتہدین مثلاً امام أبو حنیفہ‘ امام مالک‘ امام شافعی‘ امام أحمد بن حنبل‘ امام لیث بن سعد‘ امام أبو ثور‘ امام ابن تیمیہ‘ امام ابن قیم اور امام شوکانی رحمہم اللہ وغیرہ کی اجتہادی کاوشوں کا انکار بھی شامل ہے‘ جنہوں نے امت مسلمہ میں وہ فکری بیداری پید اکی کہ جس کا انکار ممکن نہیں ہے۔ اجتماعی اجتہاد کی اہمیت بیان کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی بھی حال میں انفرادی اجتہاد کا انکار ہی کر دیا جائے۔‘‘ فقہ الواقع کا صحیح علم نہ ہونا تہذیب و تمدن کی ترقی سے پیدا شدہ نئے علوم و فنون میں اس قدر و سعت ہو گئی ہے کہ کسی ایک شخص کے لیے ان سب علوم کا احاطہ کرناتقریباً ناممکن ہے۔خصوصاًعلم معاشیات اور میڈیکل سائن س نے بہت سے افعال و اعمال کے بارے میں جواز اور عدم جواز کے سوالات پید اکر دیے ہیں ۔ ایک عالم دین جس نصاب تعلیم سے گزرتاہے‘ اس میں معاشیات‘ طب یا دو سرے معاصر علوم و فنون کی تعلیم و تربیت شامل نہیں ہوتی۔ لہذا ان مسائل میں انفرادی فتوی جاری کرنے کے لیے بہت زیادہ محنت و تحقیق کی ضرورت پڑتی ہے۔ مثال کے طو ر پر کلوننگ جائز ہے یا ناجائز؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ جس کا جواب ا سی صورت دیا جا سکتا ہے جبکہ یہ بھی معلوم ہو کہ کلوننگ فی الواقع کیا شیء ہے؟۔ پس کلوننگ سے متعلقہ جمیع معلومات کو فقہ الواقع کا علم کہتے ہیں ۔ کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز ہے یا ناجائز؟ ایک تو اس مسئلے کاشرعی پہلو ہے جبکہ دو سرا واقعاتی یعنی کریڈٹ کارڈ کیا چیز ہے؟یہ فقہ الواقع کا مسئلہ ہے۔ فقہ الواقع کو جاننے کے بعد پر اس پر فقہ الأحکام کااطلاق کیا جاتا ہے اور فقہ الواقع پر فقہ الأحکام کی اس تطبیق کا نام اجتہا دہے۔ ہم نے اجتہاد کی تعریف میں بیان کیا تھا کہ اجتہاد کی ایک صورت حکم شرعی کی تلاش ہے جبکہ دو سری صورت اس حکم کا اطلاق۔اجتہادی کی دو سری قسم کو فقہاء کی اصطلاح میں تحقیق المناط بھی کہتے ہیں ۔ پس حکم شرعی کے اطلاق میں فقہ الواقع کا علم ہونا أز بس ضروری ہے۔ عصر حاضر میں تحقیق المناط میں صحیح رائے تک پہنچنے کے لیے اجتماعی اجتہاد ایک بنیادی ضرورت کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہو گی کہ علماء کی ایک جماعت کسی بھی جدید مسئلے میں متعلقہ علوم کے ماہرین فن کے ساتھ بیٹھ کر پہلے اس مسئلے کو سمجھے گی اور پھر اس پر حکم شرعی کا اطلاق کرے گی۔ یہ واضح رہے کہ فقہ الواقع کو سمجھنے میں تو ماہرین فن سے مشورہ کیا جائے گا لیکن حکم کا اطلاق صرف علماء کی جماعت ہی کرے گی۔ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’أن الکثیر من القضایا الم ستجدۃ‘ قد یحیط بھا الکثیر من الملاب سات والتشعبات والصلات بقضایا وعلوم متعددۃ‘ مما یجعل القدرۃ علی فھم کل جوانبھا ومتعلقاتھا لا یکتمل إلا أن یکون
Flag Counter