سلف صالحین کے طریقے کی اتباع
اجتماعی اجتہاد کا منہج و طریقہ کار کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ دورنبوت‘ خلفائے راشدین‘ تابعین عظام اور أئمہ أربعہ کے دور میں اس کا بہت رواج تھا۔ خلفائے راشدین کا دور اجتماعی اجتہاد کے عروج کا زمانہ ہے۔حضرت أبوبکر اور حضرت عمررضی اللہ عنہما کا طرز عمل یہ تھا کہ جب ان کو کوئی نیا مسئلہ درپیش ہوتا تو مدینہ میں موجود صحابہ رضی اللہ عنہم کو بلواتے اور ان سے اس بارے مشورہ لیتے تھے اور باہمی مشاورت کے بعد کوئی رائے جاری کر دیتے تھے۔ تابعین کے زمانے میں مدینہ میں فقہائے سبعہ کی علمی مجلس قائم تھی۔ تاریخ کی کتب میں حضرت امام مالک رحمہ اللہ اور امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقہی مجال س کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ أئمہ أربعہ کے دور کے بعد بھی تاریخ اسلامی کے مختلف ادوار میں گاہے بگاہے اجتماعی اجتہاد کی کاوشیں جاری رہیں ۔بر صغیر پاک و ہند میں فتاوی عالمگیریہ اور سلطنت عثمانیہ میں ’مجلۃ الأحکام العدلیۃ‘کی ترتیب و تدوین اجتماعی اجتہادی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے۔ لہذا عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد کے طریقہ کار کو فروغ دینا درحقیقت خیرالقرون کی سنت کو زندہ کرنے کے مترادف ہے۔ مولانا مجاہد الاسلام قا سمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہ اجتماعی اجتہاد و قیاس اس امت میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ غور کیا جائے تو پورے ت سل سل کے ساتھ اس کی نظیریں ہمیں پچھلے چودہ سو سال کے اندر ملتی ہیں اور خود عہد ر سالت کے اندر ملتی ہیں ۔ أ ساری بدر(بدر کے قیدیوں )کے واقعہ میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ حضرات علمائے کرام کو معلوم ہے کہ مشورہ کے بعد فیصلہ ہوا‘ اس میں خطا ہوئی اور اس پر عتاب بھی ہوا‘ یہ اجتماعی اجتہاد تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی ایسی ایک مجلس بنائی تھی‘ ایسی مثالیں کثرت سے ملتی ہیں کہ جو بھی نئے مسائل امت کو پیش آتے‘ خلفائے راشدین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوجمع کر کے ان سے دریافت کرتے کہ آپ نے کوئی حدیث اس سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو تو بتائیں ‘ اگر حدیث مل جاتی تو فیصلہ ہو جاتا ورنہ اجتہاد و قیاس سے فیصلہ کیاجاتا تھا۔ امام اعظم أبو حنیفہ رحمہ اللہ نے اپنے شاگردوں کے ساتھ بحث و مذاکرہ کا سلسلہ قائم فرمایا اور تقریباً چالیس عظیم المرتبت تلامذہ کے ساتھ اجتماعی اجتہاد و قیاس کا سلسلہ جاری رکھا۔ عالمگیر رحمہ اللہ نے فتاوی عالمگیریہ مرتب کرنے کے لیے علماء کو جمع کیا‘ اس زمانے میں حالات بدلے ہوئے تھے ‘ نئے مسائل پیدا ہوتے تھے‘ انہیں حل کرنے کی ضرورت تھی ا سی لیے فتاوی عالمگیریہ مرتب ہوا۔ اس زمانہ کے فقہاء کی جلیل القدر جماعت مقرر کی گئی۔’مجلۃ الأحکام العدلیۃ‘خلافت عثمانیہ میں مرتب ہوا‘ یہ بھی علماء ہی کی ایک عظیم جماعت نے مرتب کیا۔‘‘[1]
اس موضوع ہمارے اس مقالے میں ایک مکمل باب موجود ہے ‘ جس میں دور نبوی‘ خلفائے راشدین‘ تابعین عظام اور أئمہ أربعہ کے دور میں اجتماعی اجتہاد کی کاوشوں کا ایک تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
قانون سازی میں معاونت
اسلامی تاریخ کے چودہ سو سالوں میں کسی خطہ ارضی میں کوئی متعین اسلامی قانون نافذ نہیں رہا بلکہ عدالتوں میں موجود مجتہد قاضی کسی ایک خاص مسلک کی فروعات یا اپنے ذاتی اجتہادات کی روشنی میں مقدمات کے فیصلے فرمایا کرتے تھے۔ اسلامی ممالک میں قانون سازی کا رواج مغرب سے در آمد شدہ ہے۔غیر مسلم ممالک ‘ریا ستوں اور اداروں کے ساتھ تجارتی‘ معاشی اور معاشرتی تعلقات بڑھنے کی وجہ سے مسلم ریا ستوں میں بھی قانون سازی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ بہت سے اسلامی ممالک میں علماء نے قانون سازی کے اس عمل کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آگے بڑھانے پر زور دیا۔ جس وجہ سے عصر حاضر میں فقہی اقوال کی قانون سازی کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ اکثر و بیشتر اسلامی ممالک میں سلف صالحین کے فقہی ذخیرے سے ا ستفادہ کرتے ہوئے اسلامی قانون سازی کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے۔ قانون سازی کے اس عمل کی شرعی حیثیت کے بارے میں علماء کی کیا آراء ہیں ؟ اس بارے میں ہم ان شاء اللہ اس مقالے کے تیسرے باب میں بالتفصیل گفتگو
|