Maktaba Wahhabi

211 - 214
’’ الشرط الثالث أن یکون من أھل الاجتھاد وبھذا قال مالک والشافعی وبعض الحنفیۃ وقال بعضھم یجوز أن یکون عامیاً فیحکم بالتقلید۔‘‘[1] ’’قاضی کی تیسری شرط یہ ہے کہ وہ اہل اجتہاد میں سے ہو۔ اس قول کو امام مالک رحمہ اللہ ‘ امام شافعی رحمہ اللہ اور بعض حنفیہ نے بھی اختیار کیا ہے۔جبکہ حنفیہ کی ایک دو سری جماعت کا کہنا یہ ہے کہ یہ بھی جائز ہے کہ قاضی ایک عامی ہواور تقلید کے مطابق فیصلے کرے۔‘‘ آٹھویں دلیل تہذیب و تمدن کے ارتقاء نے کئی ایک نئے مسائل پیدا کر دیے ہیں مثال کے طور آئے روز کاروبارکے نت نئے طریقے متعارف ہو تے رہتے ہیں جن سے علماء اور قاضی تو کیا عام کاروباری حضرات بھی واقف نہیں ہوتے۔ اس قسم کے جدید مسائل نے قاضیوں کے لیے فیصلوں میں اس لحاظ سے مشکلات پیدا کر دی ہیں کہ ان کے پاس ان مسائل سے متعلق فقہ الواقع کا علم بہت کم ہوتاہے۔ پس ان حالات میں تقنین کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ حاجۃ المستجدات إلی حکم شرعی یتم بالنص علیھا فی التقنین وترکھا لاجتھاد القضاۃ لیس من الحکمۃ لکثرۃ مشاغلھم وعدم تفرغھم للبحث و الا ستقصاء فی کل مستجد وخصوصا مع تطور الحیاۃ وکثرۃ الم ستجد فیھا ومن الأمثلۃ علی ذلک المعاملات المصرفیۃ ومسائل المقاولات والمناقصات وشروط الجزاء ومشاکل الا ستیراد والتصدیر والتأمین بمختلف جوانبہ ونحو ذلک مما لا قدرۃ لغالب القضاۃ علی معرفۃ الحکم الذی یحکمون بہ فی الخلاف حولھا۔‘‘[2] ’’نئی ایجادات کا شرعی حکم تقنین کے ذریعے ہی معلوم ہو سکتا ہے اور ان کے شرعی حکم کو قاضیوں پر چھوڑ دینا کوئی حکمت نہیں ہے کیونکہ ان کی مصروفیات بہت زیادہ ہوتی ہیں اور ہر نئے مسئلے میں بحث و تحقیق کے لیے ان کے پاس فارغ وقت کم ہوتاہے‘ خاص طور پر تمدنی ارتقاء اور کثرت ایجادات نے اس کو اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔ اس کی مثالوں میں بینکوں کے معاملات‘ ٹھیکے اور ٹنڈر وغیرہ کے مسائل‘ جرمانے کی شروط‘ در آمدات و برآمدات کی مشکلات اور انشورنس وغیرہ کے مختلف مسائل ہیں کہ جن کے بار ے میں اس حکم شرعی کی معرفت حاصل کرنا کہ جس کے ساتھ قاضی اس کا فیصلہ کریں ‘ اکثرقاضیوں کے لیے مشکل ہے کیونکہ خارج میں ان نئے مسائل کے شرعی حکم کے بارے میں بہت اختلاف پایاجاتا ہے۔‘‘ اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے کا حل بہت آ سان ہے اور وہ یہ ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق مختلف عدالتیں بنا دی جائیں جیسا کہ پہلے ہی سے ہر ملک میں دیوانی اور فوجداری عدالتیں تو پائی ہی جاتی ہیں ‘ اب شرعی تجارتی عدالتیں بھی بنا لی جائیں جو مالی معاملات سے متعلق مقدمات کو حل کریں ۔ان تجارتی عدالتوں میں ایسے قاضیوں کا تعین کیا جائے جو علوم شرعیہ کے علاوہ معاشیات کے بھی ماہر ہوں اور یہ کوئی ناممکن امر نہیں ہے۔پاکستان ہی کی مثال لے لیں ‘ ایسے علماء موجود ہیں جو علوم شرعیہ کے ساتھ ساتھ جدید معاشی مسائل سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہیں مثلا مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ وغیرہ۔ جہاں تک اعلی عدالتوں کا معاملہ ہے تو وہاں اس مسئلے کا حل یوں نکالا جا سکتا ہے کہ تمام ہائی کورٹ س یا سپریم کورٹ میں ایسے علماء کو بطور اضافی قاضی(additional judges)کے مقرر کیا جائے جو کتاب و سنت کے ساتھ جدید معاشیات کے بھی ماہر ہوں ۔ نویں دلیل ایک دلیل یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ تقنین سے بہت سی مصالح حاصل ہوتی ہیں اور مفا سد ختم ہوتے ہیں ۔شیخ عبد الرحمن الشثری حفظہ اللہ لکھتے
Flag Counter