ہیں :
’’ ومنھا أنہ بالتقنین تتحقق مصالح وتندفع مفا سد؟۔‘‘[1]
’’ تقنین کی وجوہات جواز میں ایک یہ بھی ہے کہ اس سے بہت سی مصالح پوری ہوتی ہیں اور مفا سد ختم ہوتے ہیں ۔‘‘
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ دین اسلام کی بارہ سو سالہ تاریخ میں شرعی عدالتوں میں تقنین کے بغیر فیصلے ہوتے رہے ہیں لیکن کوئی مفا سد پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی مصالح کو پورا کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
اگر اس کا جواب یہ دیا جائے کہ احوال و ظروف تبدیل ہوگئے ہیں اور جدید مسائل پیدا ہو گئے ‘ جن کی وجہ سے تقنین کی حاجت محسوس ہوئی ہے تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ حالات تو قیامت تک بدلتے رہے گے اور د س‘ بیس سال کے عرصے میں ایک نئی تقنین کی ضرورت کا احساس ہو گا۔ شیخ عبد الرحمن الشثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ والجواب أنہ من المعلوم أن دین الاسلام صالح لکل زمان ومکان و لقد مرت علیہ عصور ات ساع کات ساع الدولۃ العبا سیۃ فی القارات الثلاث ومع ذلک تحققت العدالۃ بتحکیم الشریعۃ وانتشر الی سر وارتفع الحرج ولم یعرفعبر مر التاریخ عن واحد من الأئمۃ المعتبرین وجوب إلزام القضاۃ فی أحکامھم بمذھب واحد فضلاًعما یدعو إلیہ ھؤلاء من تقنین الشریعۃ بما ینا سب العصر الحاضر وعلی ھذا ففی کل عصر تقنین جدید۔‘‘[2]
’’ اس وجہ جواز کاجواب یہ ہے کہ یہ بات معلوم ہے کہ دین اسلام ہر زمانے اور جگہ کے لیے قابل عمل ہے۔بعض ادوار میں تو دین اسلام کی و سعت تین براعظموں تک پھیل ہوئی تھی جیسا کہ خلافت عبا سیہ ہے‘جبکہ اس کے ساتھ شریعت کی تحکیم کے ساتھ عدل و انصاف ہو رہاتھا۔ پس اس طرح آ سانی پھیل گئی اورتنگی رفع ہوگئی۔ اس دوران أئمہ معتبرین میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ قاضیوں کو اپنے فیصلوں میں ایک ہی مذہب کا پابند بنانا چاہیے چہ جائیکہ اس کو اختیار کیاجائے کہ جس کی دعوت تقنین کے قائلین دیتے ہیں کہ ایسی تقنین کی جائے جو عصر حاضر کے منا سب ہو۔ پس(عصر حاضر تو تبدیل ہوتا رہتا ہے لہٰذا) اس وجہ سے ہر زمانے میں ایک نئی تقنین کی ضرورت محسوس ہو گی۔‘‘
اس کا ایک جواب یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ تقنین میں بھی بعض مفا سد ہیں کہ جن کا تذکرہ ہم تقنین کے مانعین کے دلائل کے تحت کر چکے ہیں ۔ پس اگر تقنین سے کچھ مفا سدختم ہوتے ہیں توکچھ پیدا بھی ہوتے ہیں ۔
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ تقنین سے مفا سد کم پیدا ہوتے ہیں جبکہ ختم زیادہ ہوتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أن التقنین لا یخلو من مفاسد لکن المصالح العامۃ التی یحققھا التقنین والتی تعود علی الضروریات الخمس بالعنایۃ والرعایۃ والحفظ کما مر فی أدلۃ ھذا القول کل ذلک یدعو إلی التغاضی عن ھذہ المفا سد تطبیقاً للقاعدۃ القائلۃ اذا تعارضت مفسدتان روعی أعظمھا ضرارا بارتکاب أخفھما۔‘‘[3]
’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ تقنین سے کچھ مفا سد پیدا ہوتے ہیں ‘ لیکن جو مصالحت قنین سے پوری ہوتی ہیں اور وہ مصالح جو ضروریات خمسہ کی رعایت اور حفاظت کے لیے ضروری ہیں ‘ یہ سب اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان تمام مفا سد سے چشم پوشی اختیار کی جائے تاکہ اس قاعدہ فقہیہ پر عمل ہو سکے کہ جب دو مفسدے ایک دو سرے سے متعارض ہوں تو ان میں سے کم تر مفسدے کا ارتکارب کرتے ہوئے بڑے مفسدے( سے بچنے)کا لحاظ رکھا جائے گا۔‘‘
اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ تقنین یا عدم تقنین دونوں میں سے کس میں مفا سد زیادہ یا نسبتاً بڑے ہیں ‘ یہ ایک ا ستقرائی موضوع ہے‘ جس
|