Maktaba Wahhabi

213 - 214
میں اختلاف کی گنجائش بہر حال رہے گی۔کیونکہ جو علماء تقنین کی حرمت کے قائل ہیں ‘ ان کے نزدیک تقنین کی صورت میں مفا سدبڑے اور زیادہ ہیں ۔ تقنین اور عدم تقنین کے دلائل پر مشتمل ہماری مذکورہ بالا بحث سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ تقنین کی صورت میں بظاہر مفا سد زیادہ نظر آ رہے ہیں ۔پاکستان میں بھی کئی ایک نامور اور ماہر جج حضرات ا سی نتیجے تک پہنچے کہ اس ملک میں بھی نفاذ شریعت کے لیے عدم تقنین کی صورت کئی ایک پہلوؤں سے تقنین سے بہتر ہے۔مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’پاکستانی اعلی عدلیہ کی کئی ممتاز شخصیتیں سعودی عرب اور پاکستان میں نفاذ شریعت کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچیں کہ پاکستان کو بھی نفاذ شریعت کے سلسلے میں خلیجی ممالک کا انداز ہی اپنانا چاہیے۔جن میں جسٹ س بدیع الزمان کیکاؤ س مرحوم کے علاوہ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹ س گل محمد خان مرحوم اس نظریہ کی اہمیت اور اس کے بعض امتیازی پہلوؤں پر انگریزی اور اردو جرائد میں لکھتے بھی رہے ہیں ۔‘‘[1] مسئلے کا حل کیا ہے؟ مذکورہ بالا بحث کے نتیجے میں ہم اس مقصود تک پہنچے ہیں کہ عدم تقنین بہر حال تقنین سے بہتر ہے۔ عدم تقنین کے قائل علماء کے دلائل شرعی اعتبار سے وزنی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ ان کی بنیاد قرآن و سنت کی نصوص ہیں ‘ اگرچہ انہوں نے اپنے نقطہ نظر کے حق میں عقلی‘ منطقی‘ تاریخی اور مشاہداتی دلائل بھی بیان کیے ہیں ۔جبکہ دو سری طرف’ تقنین ‘کے حامل فقہاء کے دلائل کی اصل بنیاد کتاب و سنت کی نصوص نہیں ہیں بلکہ مصلحت‘ سد الذریعہ اور استحسان وغیرہ جی سے قواعد عامہ ہیں یا تجرباتی و مشاہداتی اور منطقی دلائل پر ان کے موقف کی عمارت کھڑی ہے۔ تاریخی نقطہ نظر سے بھی اگر ہم دیکھیں تو عدم تقنین کوئی ناقابل عمل چیز نظر نہیں آتی۔ تقریباً ۱۲ صدیوں تک اسلامی تاریخ اور مملکتیں کسی مدون قانون کے تصور سے ناآشنا رہی ہے۔ عدم تقنین کی صورت میں ایک اسلامی ریا ست میں شرعی عدالتیں کسی طرح بأحسن و خوبی فرائض سر انجام دے سکتی ہیں یا ان مفا سد سے بچ سکتیں ہیں کہ جن کا تذکرہ تقنین کے حاملین علماء نے کیا ہے۔ذیل میں ہم اس بارے میں چند تجاویز پیش کررہے ہیں ۔ 1۔ وہ مسائل ‘ جو قرآن و سنت کی صریح نصوص سے ثابت ہیں اور ان پر امت کا اجماع ہے‘ان میں قانون سازی کی جا سکتی ہے۔مثلاً غیر شادی شدہ زانی کے لیے سو کوڑوں اور شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا۔ 2۔ ان انتظامی مسائل میں بھی قانون سازی کی جا سکتی ہے کہ جو امت میں بالاتفاق اباحت کا درجہ رکھتے ہیں جیسا کہ ٹریفک کے اشاروں وغیرہ کے قوانین۔ 3۔ فقہاء کے مابین اختلافی مسائل میں قانون سازی نہ کی جائے اور مجتہدقاضیوں کے اجتہاد پر مقدمات کا فیصلہ چھوڑ دیا جائے۔ 4۔ مجتہدقاضیوں کو بعض ایسے اصولوں اور ضابطوں کے مطابق فیصلوں کاپابند بنایا جائے جو امت کے مابین متفق علیہ ہوں ۔مثلاًکوئی بھی قاضی قرآن و سنت کی صریح نصوص یامجمع علیہ مسائل کے خلاف فیصلہ نہیں کرے گا۔ 5۔ قاضیوں کے انتخاب میں ان علماء کو ترجیح دی جائے جو معروف اور قابل اعتماد مدار س اسلامیہ اور اسلامی یونیور سٹیوں مثلاً جامعہ ازہر‘ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ وغیرہ کے کلیات شریعہ سے فارغ ہوں اور انہوں نے قضاء میں ڈپلومہ کور سز کیے ہوئے ہوں ۔علاوہ أزیں عالم اسلام کے مختلف خطوں سے مطلوبہ معیار پر اترنے والے اہل علم کو سرکاری سطح پر جمع کیا جائے اور ان کی بطور قاضی تقرری کی جائے۔ 6۔ جدید مسائل کے حل کے لیے علیحدہ عدالتیں بنائی جائیں جن میں ان مسائل سے متعلقہ علوم میں ر سوخ رکھنے والے علماء کو قاضی مقرر کیا جائے جیسا کہ ہم سابقہ صفحات میں شرعی تجارتی عدالتوں کا تصور پیش کر چکے ہیں ۔
Flag Counter