Maktaba Wahhabi

214 - 214
7۔ معاشرے کے نئے اور پیچیدہ مسائل کے حل کے ایسی اعلی عدالتوں کی طرف رجوع کیاجائے جن میں ایک قاضی کی بجائے ان کی جماعت ان مسائل کے بارے میں فیصلہ دے جیسا کہ پاکستان میں بینک کے سود کے بارے میں سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بنچ نے حرمت کا فیصلہ دیاجو پانچ قاضیوں پر مشتمل تھا۔ 8۔ جب دیوانی اور فوجداری عدالتوں کی تقسیم اور قیام ممکن ہے تو علاقائی سطح پر مثلاًتحصیل ‘ضلع اور ڈویژن کی سطح پر حنفی اور اہل الحدیث عدالتیں بھی قائم کی جا سکتی ہیں تاکہ متعلقہ مذاہب کے عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنے مسالک کے قاضیوں اور عدالتوں کی طرف رجوع کریں ۔ 9۔ شرعی عدالتوں کے قاضیوں کو تقابلی فقہ‘ مختلف اسلامی ممالک کے قوانین اور جدید انگریزی قانون کی تعلیم و تعلم کے مراحل سے بھی گزارا جائے تاکہ ان میں و سعت نظری پیدا ہو۔ 10۔ قاضیوں کی اخلاقی‘ روحانی اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے سرکاری سطح پر کور سز‘ امتحانات اور تربیت کا انتظام کیا جائے۔ 11۔ دیہاتوں میں پنجائیت کی طرح کی دیہی عدالتوں کا تصور اجاگر کیاجائے جن میں دینی مدار س کے فارغ علماء کو کچھ تربیتی کور سز سے گزارنے کے بعد مقامی سطح پر چھوٹے موٹے قضیوں کوباہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے۔ 12۔ شرعی عدالتوں کے قاضیوں کے فیصلوں کو مدون کر کے شائع کیا جائے تاکہ وہ آنے والے ادوار میں ایک نظیر کا کام دے سکیں ۔ 13۔ تقابلی فقہ کی کتابوں کو بنیاد بناتے ہوئے فقہاء کے اختلافات کو اختصار کے ساتھ جدید قانون کی زبان میں مدون کر دیا جائے تاکہ حوالہ جاتی کتابوں کے طور پر ان سے ا ستفادہ ممکن حد تک آ سان ہو جیسا کہ جسٹ س تنزیل الرحمن صاحب نے فقہ حنفی کو ا سی اسلوب میں کتابی شکل دی ہے۔ 14۔ احکام القرآن اور احکام الأحادیث کی مستقل کتابیں لکھی جائیں ‘ جن میں اختصار کے ساتھ احکام سے متعلقہ تمام آیات اور أحادیث کو جدید اسلوب اور انداز تحقیق میں جمع کر دیا جائے۔ 15۔ اعلی عدالتوں میں ایسے قاضیوں کی تقرری کی جائے جو شرعی علوم کے علاوہ جدید قانون کی تعلیم سے بھی گزرے ہوں ۔ تقابلی فقہ کا و سیع مطالعہ رکھتے ہوں اور فقہی تعصبات اور گروہ بندی سے پاک ہوں ۔علوم شرعیہ میں ر سوخ رکھتے ہوں اور دینی میدان میں ان کی قابل قدر خدمات موجود ہوں ۔امانت‘ دیانت‘ بردباری‘ صداقت اور شرافت جی سے اخلاقی اوصاف سے مزین ہوں ۔ ٭٭٭
Flag Counter