Maktaba Wahhabi

100 - 214
’’اور ا سی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جدید مسائل میں اجتماعی اجتہاد کے میدان کئی ایک ہیں ۔ یہ میدان بہت و سیع ہیں اور اقتصادی‘ طبی‘ علمی‘ أخلاقی‘ شہری‘ جنگی‘ سیا سی اور روز مرہ زندگی سے متعلق کئی ایک مسائل پر مشتمل ہیں ۔ یہ مسائل منفرد بھی ہیں اور مجتمع بھی‘واضح و صریح بھی ہیں اور پیچیدہ بھی‘ متشابہ بھی ہیں اور باہم متضاد بھی‘ ایک مسلمان کی روزہ مرہ کی زندگی انہی مسائل سے دو چار ہے لہذا ان مسائل میں صحیح تصور کے ساتھ أمرواقعہ کے جمیع پہلؤوں کا واقعاتی اور علمی جائزہ لینا اور پھرشرعی رائے بنانے میں بحث اور مفید علمی تحقیق ایک لازمی أمر ہے۔ یہ کام کامل درجے میں ا سی صورت ممکن ہو گا جبکہ اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ ہو۔‘‘ فقہی اقوال میں ترجیح کے لیے اجتماعی اجتہاد علماء کی ایک جماعت کا نقطہ نظر ہے کہ مختلف فقہی مذاہب کے نمائندہ علماء سابقہ فقہی ذخیرے کا أز سر نو ایک علمی جائزہ لیتے ہوئے ایک اجتماعی فقہ کی تدوین کریں ۔اور پھر ا سی اجتماعی فقہ کو اسلامی ممالک میں قانون سازی کی بنیاد بنایا جائے۔ اس طرح کسی بھی ملک میں جو قانون نافذ ہو گا ا سے جمیع مکاتب فکر کے علماء کی تصدیق حاصل ہو گی۔ علاوہ ازیں وہ تمام مسالک کے فقہی مصادر سے أخذ شدہ ہونے کی وجہ سے عوام الناس کے ہاں اطمینان کا باعث بھی ہو گا۔ لیکن أصل مسئلہ یہ ہے کہ فقہی مسائل میں ترجیح کا یہ کام کیسے ہو گا اور کون کرے گا؟ اس بارے میں ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ ومن ھنا یأتی ال سؤال : کیف یختار الأمۃ أحد أقوال ال سابقین المختلفۃ فی المسألۃ‘ لتجعل منہ قاعدۃ قانونیۃ لجمیع المجتمع؟ إن ھذا الاختیار یحتاج إلی قدر کبیر من الموازنۃ والمناقشۃ لتلک الأقوال حتی یفضی ھذا إلی ترجیح أحدھا لیکون ھو المختار۔ وھذا الجھد فی الترجیح بین الأقوال ھو نوع من الاجتھاد‘ ولکن ھذا النوع من الاجتھاد یخشی علیہ إذا قام بہ فرد واحد وخاصۃ فی زماننا ھذا أن یخطیء فی الترجیح أو أن یتأثر بنزعۃ مذھبیۃ أو رؤیۃ ضیقۃ فیأتی اختیارہ وترجیحہ بخطأ لا یتوقف أثرہ علی المجتھد وحدہ أو علی واحد من النا س‘ و إنما ی سری أثر ذلک الخطأ علی المجتمع کلہ باعتبارہ سیطبق ذلک الاختیار قانوناً عاماً۔ومن ھنا کان لا بد أن یتم ھذا النوع من الاجتھاد الترجیحی عبر الاجتھاد الجماعی‘ لیکون أکثر دقۃ فی الموازنۃ والترجیح وأکثر تحریا للأدلۃ والأقوال۔‘‘[1] ’’یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہی مسئلے میں سابقہ علماء کے مختلف اقوال میں سے ایک قول امت کیسے اپنے لیے منتخب کرے گی تا کہ اس سے معاشرے کے لیے کوئی قاعدہ قانون بنا سکے۔ کسی ایک قول کو منتخب کرنے کے لیے سابقہ فقہی اقوال میں ایک بہت بڑے موازنے اور مناقشے کی ضرورت ہے یہاں تک اس کے ذریعے سابقہ اقوال میں سے کسی قول کو ترجیح دی جائے تا کہ وہ مختار قول ہو۔مختلف اقوال میں ترجیح کا یہ کام بھی اجتہا دہی کی ایک قسم ہے۔اجتہاد کی اس قسم کے بارے میں خدشہ یہ ہے کہ اگر کوئی فرد واحد اس کام کے لیے کھڑ اہو گا ‘ خاص طور پر ہمارے اس زمانے میں ‘ تو ترجیح میں خطا کھائے گا یا مذہبی کھینچا تانی سے متاثر ہو گایا تنگ نظری سے کام لے گا۔ پس اس صورت میں وہ اپنی ترجیح اور اختیار میں خطا کرے گا۔اوراگر اس اختیار کی بنیادپر کوئی عمومی قانو ن سازی ہوتی ہے تو اس کااثر کسی ایک فرد یا مجتہد پر نہیں پڑے گا بلکہ اس خطا سے سارا معاشرہ ہی متاثر ہو گا۔ لہذا ترجیحی اجتہاد کی یہ قسم اجتماعی اجتہاد ہی کے ذریعے مکمل ہونی چاہیے تاکہ مختلف اقوال کے موازنے اور ترجیح کے کام کو باریک بینی سے کیا جا سکے اور مختلف اقوال ا ور ان کے دلائل کی تلاش میں بھی زیادہ محنت صرف ہو سکے۔‘‘ ڈاکٹر تو فیق الشاوی حفظہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اگر سابقہ فقہی اقوال میں راجح و مختار قول کو اختیار کرتے ہوئے کوئی قانون سازی کرنی ہے تو پھر یہ کام اہل علم کی ایک مجلس کرے اور خاص حالات میں اہل حل و عقدکی مجلس(مثلاً پارلیمنٹ وغیرہ)بھی اس کام میں شریک ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر
Flag Counter