راجح اقوال میں لازما محصور نہیں ہوتی کیونکہ فقہاء کا راجح قول اس قانون کے واضعین کے نزدیک توحق ہو گا لیکن دو سرے فقہاء ‘علماء ‘ قضاۃ اور ججوں کے ہاں عین ممکن ہے‘ حق کچھ اور ہو۔ پس اس صورت میں قاضیوں کے لیے اس قانون کا التزا م ضروری نہ ہو گا اور نہ ہی اس قانون کے التزام کی شرط ججوں کو عہدہ قضاء دیتے وقت یا اس کے بعد عائدکی جا سکتی ہے۔‘‘
اس امت کی طرح پچھلی اقوام کو بھی حق کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم تھا۔قرآن میں ایک جگہ حضرت داؤد علیہ السلام سے ارشاد ہے:
﴿ فَاحْکُمْ بَیْنَ الناس بِالْحَقِّ ﴾[1]
’’آپ لوگوں کے مابین حق کے ساتھ فیصلہ فرمائیں ۔‘‘
دو سری دلیل
قرآن میں بعض دو سرے مقامات پر مسلمانوں کے مابین باہمی اختلاف کی صورت میں اصل معیار قرآن و سنت کو قرار دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٓ اِِلَی اللّٰہِ ﴾[2]
اور جس چیز میں بھی تمہارے مابین اختلاف ہو جائے پس اس کا حکم اللہ کی طرف لوٹا دو۔
﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّ سوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّ سوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾[3]
’’اے وہ لوگو! جو ایمان لے کر آئے ہو۔تم اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اپنے امراء کی بھی اطاعت کرو پس اگر تمہارے(اور حکمرانوں کے)مابین کسی مسئلے میں تنازع ہو جائے تو اس مسئلے کو اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹادو‘ اگر تو تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کے باہمی تنازعات میں اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی طرف رجوع کو واجب قرار دیا گیا ہے اور اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم کسی معین مذہب یا رائے یا قانون میں محصور نہیں ہے۔بعض اوقات ایک مجتہد قاضی کسی مقدمے کا فیصلہ کرتے وقت یہ محسوس کر سکتا ہے کہ اس مسئلے میں ریا ستی قانون اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے۔ پس اس صورت میں اس قاضی کے لیے اس قانون کے تحت فیصلہ کس طرح جائز ہو جائے گا؟۔
اس آیت مبارکہ میں لفظ’شیء‘ نکرہ ہے جو شرط کے سیاق میں ہے اور عربی زبان کا قاعدہ یہ ہے کہ جب نفی‘ نہی یا شرط کے سیاق میں نکرہ ہو تو وہ عبارت اپنے عموم میں نص بن جاتی ہے یعنی اس وقت اس عبارت سے عموم کا بیان متکلم کا مقصود و منشا ہوتا ہے۔شیخ بکر أبو زید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أن قولہ ﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ﴾ نکرۃ فی سیاق الشرط تعم کل ما تنازع فیہ المؤمنون من مسائل الدین دقہ وجلہ جلیہ وخفیہ ولو لم یکن فی کتاب اللّٰہ ور سولہ بیان حکم ما تنازعوا فیہ لم یأمر بالرد إلیہ إذ من الممتنع أن یأمرتعالیٰ بالرد عند النزاع إلی من لا یوجد عندہ فصل النزاع۔[4]
’’اللہ تعالیٰ کے قول ’’ پس اگر تمہارے مابین کسی بھی چیز کے بارے میں جھگڑا ہو جائے‘‘ میں شرط کے سیاق میں نکرہ موجود ہے جو ان تمام مسائل دینیہ کو شامل ہے جن کے بارے میں مسلمانوں میں اختلاف ہو جائے ‘چاہے وہ مسائل چھوٹے ہوں یا بڑے‘ واضح ہوں یا پوشیدہ‘ پس اگر کوئی ایسا م سئلہ‘ کہ جس کے بارے میں مسلمانوں میں تنازع ہو جائے‘ کتاب اللہ اور سنت ر سول میں موجود نہ ہو تاتو اس کو
|