واضح کرنے کی کوشش کریں ۔ ڈاکٹر شعبان محمد ا سماعیل حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ظھور العدید من القضایا التی صاحبت النمو وتطویر الحیاۃ ‘ مثل: التعامل مع المصارف‘ والت سلیف لأغراض تجاریۃ وزراعیۃ وعقاریۃ‘ ومسائل التأمین المختلفۃ‘ والشرکات المساھمۃ المغفلۃ‘ وھی التی لایعلن عن مقدار رأ س مالھا‘ والعقود الاقتصادیۃ الحدیثۃ‘ کعقد التورید والبیع‘ بما ی سفر علیہ سعر البورصۃ‘ وعقود الا ستصناع علی الطائرات وال سفن ونحوھا‘ ومسائل الصرف ومراعاۃ الصیغۃ‘ وح سم الکمبالیۃ والمقاصۃ وبیوع الآجال‘ وکراء الأرض بما یخرج منھا‘ ورد الدیون ھل یکون بقیمتھایوم القبض‘ أو ال سداد‘ وإجراء العقود بآلات الاتصال الحدیثۃ مثل: الفاکس والتلکس والبرق البرید وما إلی ذلک ومثل مسائل نقل الأعضاء من جسم إلی جسم آخر‘ وخاصۃ ما یتعلق منھا بالإخصاب‘ وللأطباء فیھا رأی خاص۔وغیر ذلک من المسائل المستحدثہ ‘ والتی لا یکفی فیھا الاجتھاد الفردی‘ بل لا بد فیھا من التشاور‘ وا ستخلاص آراء المجتھدین من العلماء۔‘‘[1]
’’انسانی زندگی کی نشوونما اور ترقی سے کئی ایک پیچیدہ مسائل پیدا ہو گئے ہیں مثلاً بینکوں کے ساتھ معاملات کی حدود‘ تجارتی‘ زرعی اور سرمایہ کارانہ مقاصد کے تحت قرضے جاری کرنا‘ انشورن س کے مختلف مسائل‘ جوائنٹ أ سٹاک کمپنیاں کہ جن کے أصل زر کا علم نہ ہو‘ جدید معاشی عقود مثلاً برآمدات اور ا سٹاک ایک سچینج نے جو قیمت نکالی ہے اس پر حصص کی خرید و فروخت‘ بحری اور ہوائی جہازوں کو آڈر پر تیار کروانے کے معاہدے وغیرہ‘ کرن سی کے تبادلے اور خرید و فروخت کے صیغوں کی رعایت‘ ہنڈی اور ڈرافٹ بل کی ادائیگی‘ میعادی بیوع‘ زمین کی پیداوار کے عوض اس کا کرایہ‘ قرض کی واپ سی اس کے حصول والے دن کی قیمت پر ہو گی یا اس مسئلے میں کوئی ر ستہ نکالا جائے گا‘ جدید آلات اتصال مثلاً فیک س‘ ٹیلی فیکس اور ای میل وغیرہ کے ذریعے عقود کا اجراء‘ ایک جسم سے دو سرے جسم میں اعضاء کی منتقلی‘ اورخاص طور پر نئے اعضاء تخلیق کر کے ان کی پیوند کاری کہ جس میں ڈاکٹر وں کی ایک خاص رائے ہے اور اس کے علاوہ کئی ایک جدید مسائل ایسے ہیں کہ جن میں انفرادی اجتہاد کفایت نہیں کر ے گا بلکہ اس میں باہمی مشاورت اور علماء کی ایک جماعت کی آراء سے کوئی رائے نکالی جائے گی۔‘‘
مجتہد مطلق کے حصول میں إبعاد
یہ فکر بھی علماء کے حلقے میں عام پائی جاتی کہ علوم و معارف کی و سعت اور فقہ الواقع کے تنوع کی وجہ سے عصر حاضر میں مجتہد مطلق کا وجود بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اجتماعی اجتہادات کے ذریعے فقہی مجال س اس خلاء کو پر کر سکتی ہیں ۔ اگرچہ انفرادی طور پر علماء میں مجتہد مطلق کی شرائط کا کامل درجے میں پایا جانا ناممکن ہے لیکن مختلف علوم و فنون میں مہارت رکھنے والے علماء و متخصصین کی ایک جماعت اجتماعی طور پر ان شرائط پر پورا اتر سکتی ہے جو سلف صالحین نے اجتہاد مطلق کے ذیل میں بیان کی ہیں ۔ ڈاکٹر عبد المجید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’الاجتھاد الجماعی یوجد التکامل فی الاجتھاد علی م ستوین: م ستوی المجتھد وم ستوی النظر فی القضیۃ محل الاجتھاد۔أما التکامل علی م ستوی المجتھد‘ فإن مما لاشک فیہ أن تحقق الشروط الموضوعۃ لبلوغ درجۃ المجتھد المطلق صعبۃ المنال فی عصرنا ھذا‘ لذلک ففی الاجتھاد الجماعی یکمل العلماء بعضھم بعضاً‘ ویکونوا بمجموعھم فی م ستوی المجتھد المطلق۔‘‘[2]
’’اجتماعی اجتہاد سے اجتہاد کی دو سطحوں پر کمال پیدا ہوتا ہے۔ ایک تو مجتہدین کی سطح پر اور دو سرا محل اجتہاد یعنی واقعاتی سطح پر۔ جہاں تک مجتہد کی سطح پر کمالیت کے حصول کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ درجہ اجتہاد تک پہنچنے کے لیے جو شروط مقرر کی گئی ہیں ‘ ہمارے اس زمانے میں ان تک پہنچنا بہت ہی مشکل ہے۔ ا سی لیے اجتماعی اجتہاد میں علماء میں سے بعض ‘ بعض کی تکمیل کرتے ہیں اور اس طرح مجموعی
|