اکثر و بیشتر اسلامی ممالک میں جج حضرات بھی عموماً عربی زبان سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے مصادر شریعت سے براہ را ست ا ستفادہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔اگر ان میں بعض اس کے اہل ہوں بھی تو ہرہر فقہی مذہب میں کئی ایک آراء ہوں گی جن میں کچھ راجح‘کچھ مرجوح‘ بعض معمول بہا اور بعض متروک ہوتی ہیں اور ہر جج کے بس میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ وجوہات ترجیح کو استعمال کرتے ہوئے أصح رائے کو اختیار کر سکے ۔ پس یہ منا سب معلوم ہوتاہے کہ علماء و ماہرین فن کی ایک جماعت قرآن و سنت اور فقہی مذاہب کی روشنی میں ایک قانون وضع کریں جو لوگوں کی زندگیاں شریعت کے مطابق ڈھالنے میں سیڑھی کاکام دے۔عامۃ الناس کے لیے بھی اس طرح سے شرعی قانون سے واقف ہونا اور ا سکی پابندی کرناآ سان ہو گا۔
2۔ کسی ایک علاقے یا ملک میں ایک ہی قانون رائج ہواوریہ نہ ہو کہ مختلف قاضی اپنے اپنے اجتہاد کی روشنی میں ایک ہی قضیے میں مختلف فیصلے دے رہے ہوں ۔اگر تو کسی ریا ست میں قرآ ن و سنت کو بالاتر قانون(Suprem Law)مان لیا جائے لیکن اس کی بنیاد پر قانون سازی نہ کی جائے توہر قاضی فیصلہ کرتے وقت مجتہد بھی ہو گا کیونکہ اس نے پیش آمدہ قضیے میں قرآن و سنت سے رائے اخذ کرنی ہے اور پھر اس کی تطبیق(application)بھی کرنی ہے۔اب اجتہاد میں میں اختلاف کی بنیاد پر ہر قاضی کی رائے دو سرے سے مختلف ہو گی ۔ اس کے برعکس اگر قاضیوں کو ایک متعین قانون بنا کر دے دیا جائے اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرنے کے پابند ہوں تو اس قسم کا اختلاف رونما نہیں ہو گا۔
شرعی احکام کی قانون سازی کے عیوب
تقنین کے مخالف علماء نے احکام شرعیہ کی قانون سازی کے کئی ایک عیوب گنوائے ہیں ‘ جن کا لب لباب یہ ہے:
1۔ تقنین کی صورت میں ذہنی و فکری جمود پیدا ہو جاتا ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں مفقود ہوجاتی ہیں ۔قانون کے اندر سختی کا پہلو غالب ہو گا اور اس میں وہ لچک ختم ہوجائے گی جس کادھیان شریعت نے اپنے احکامات میں جا بجا رکھا ہے۔
2۔ اگر ایسے اجتہادی مسائل میں تقنین کی جائے کہ جن کے بارے میں أئمہ سلف میں اختلاف رہا ہو تو جج حضرات کو ان مختلف آراء میں کسی ایک رائے کاپابند کرنا غیر منا سب و غیر شرعی رویہ ہے جبکہ اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ جس فقہی رائے کو کسی ملک میں بطور قانون نافذ کیا گیا ہو جج کی تحقیق اس کے برعکس نتائج پر مبنی ہو۔مثال کے طور پر اگر پاکستان میں مصلحت عامہ کا لحاظ رکھتے ہوئے اس فقہی رائے کو بطور قانون نافذ کر دیا جائے کہ جس کے مطابق ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں اور تمام ججوں کو اس کا پابند بنادیا جائے تو فقہ حنفی کے علماء یا مقلدین کے لیے نہ تو قاضی بن کران عدالتوں میں مقدمات کا فیصلہ کرنا قابل عمل ہو گا اور نہ ہی اپنے طلاق کے مسائل میں عدالتوں کی طرف رجوع ممکن۔ا سی طرح اگرنکاح کے مسائل میں جمہور کی رائے کے برعکس فقہ حنفی کے مطابق قانون سازی کرتے ہوئے یہ ضابطہ بنا دیا جائے کہ اس ملک میں کسی بھی بالغ لڑکی کو اپنی شادی کے لیے ولی کی اجازت لیناضروری نہیں ہے تو اہل الحدیث اس ضابطے و قانون کو ماننے سے انکار کر دیں گے اور نہ ہی کسی اہل الحدیث جج کو اس مسئلے میں کسی قانون کا پابند بنانا شرعاً جائز ہو گا۔ پس اس صورت میں جج بننے کے لیے پہلی شرط یہ ہو گی کہ قاضی کو شریعت سے مکمل طور پر جاہل ہو نا چاہیے اور عوام الناس کا معاملہ یہ ہو گا کہ وہ ریاست کی عدالتوں میں اپنے مقدمات لے جانے کی بجائے اپنے علماء و مفتی حضرات ہی سے تصفیہ کرا لیں گے اور تقنین کا مقصد فوت ہو جائے گا۔
3۔ یہ تقریباًناممکن ہے کہ ہر پیش آنے والے نئے مسئلے کے متعلق قانون پہلے سے وضع کر لیاجائے کیونکہ اس عالم بشری میں آئے روز نئے نئے جرائم کی شکلیں و صورتیں سامنے آتی رہتی ہیں اور صورت واقعہ کے بدل جانے سے حکم شرعی میں بھی تبدیلی کے بہت کچھ امکانات ہوتے ہیں ۔لہذا تقنین ایک ناقص عمل ہے کہ جس کے ذریعے زندگی کے بڑے بڑے گوشوں سے متعلق قانون سازی تو کی جا سکتی ہے لیکن ہر ہر
|