Maktaba Wahhabi

210 - 214
’’ أن القضاۃ ھم بمثابۃ الوکلاء عن الإمام وھم نواب لہ لأنھم صاروا قضاۃ بإذنہ والوکیل مقید بشروط موکلہ فلا یخرج عن حدودھا فإذا ألزمہ بالقضاء علی مذہب معین أو بالتقنین وجب علیہ التقید بذلک۔‘‘[1] ’’قاضی‘ امام(یعنی حکمران)کے وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں اور وہ اس کے نائب ہیں کیونکہ وہ ا سی کے حکم سے قاضی بنے ہیں ۔اور وکیل ان شروط کا پابند ہوتا ہے جو اس کے مؤکل کی طرف سے اس پر عائد ہوتی ہیں ۔ پس وکیل ان شروط کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ پس جب امام نے قاضی کو کسی معین مذہب یا قانون کے مطابق فیصلوں کا پابند بنا دیاتو قاضی پر اس قید کی پابندی واجب ہو گی۔‘‘ اس کاجواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ مؤکل اپنے وکیل کو صرف انہی شروط کا پابند بنا سکتا ہے جو جائزہوں ۔ جو علماء تقنین کو حرام قرار دیتے ہیں ‘ ان کے نزدیک امام کا قاضی پر بطور مؤکل یہ شرط عائدکرنا جائز نہ ہو گا۔جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ کل شرط لیس فی کتاب اللّٰہ فھو باطل و إن کان مائۃ شرط۔‘‘[2] ’’ہر وہ شرط جو اللہ کی کتاب میں(یعنی قرآن و سنت کے مطابق)نہ ہو تو وہ باطل ہے‘ چاہے وہ ایک سو شرطیں ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ ساتویں دلیل تقنین کے قائل علماء نے اپنے موقف کے حق میں یہ بھی کہا ہے کہ مجتہد قاضیوں کے بارے تو تقریباً اتفاق ہے کہ وہ کسی معین مذہب یا قانون کے پابند نہ ہوں گے لیکن مقلد قاضیوں کے لیے تقنین ایک لازمی أمر ہے۔ یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ فی زمانہ مسلمان مالک میں عدالتوں میں جو قاضی اور جج حضرات مقدمات کے فیصلوں کے لیے تعنیات کیے جاتے ہیں ‘ ان کی اکثریت مقلدین کے طبقے سے ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ أن الإجماع یکاد یکون منعقدا علی أن من توفرت فیہ شروط الاجتھاد من القضاۃ لا یجوز إلزامہ بالحکم بمذھب معین أما إذا کان القاضی مقلدا کما ھو أکثرقضاۃ الیوم فأقوال الفقھاء صریحۃ بأن إلزام ھؤلاء بالحکم بمذھب معین أمر سائغ ومن لا یری ھذا الإلزام من القفھاء إنما یمنعونہ لأنھم لا یرون تولیۃ القضاۃ غیر المجتھدین وھذا فیہ من الحرج ما لا یعلمہ إلا اللّٰہ فلم یبق إلا الإلزام بمذھب معین لھؤلاء القضاۃ غیر المجتھدین۔‘‘[3] ’’ اس بات پر تقریبا ًاجماع ہے کہ جن قاضیوں میں اجتہاد کی شروط پوری ہوں ‘ ان کو کسی معین مذہب کا پابند بنانا جائز نہیں ہے۔لیکن جب قاضی مقلد ہو‘جیسا کہ آج کل کی صورت حال ہے تو فقہاء کے اقوال اس مسئلے میں صریح ہیں کہ ان قاضیوں کو کسی معین مذہب کا پابند بنانا ایک جائز و مباح امر ہے۔اور جو فقہاء مقلد قاضی کو بھی کسی معین مذہب کا پابند بنانے کے قائل نہیں ہیں ان کی رائے میں غیر مجتہد کو عہدہ قضاء نہیں دیا جا سکتا۔ پس اس(یعنی غیر مجتہد کو عہدہ قضاء نہ دینے)میں جو تنگی ہے اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پس ان غیر مجتہد قاضیوں کو کسی معین مذہب کا پابند بنانا ہی(قابل عمل آپشن کے طور پر)باقی رہ جاتا ہے۔‘‘ اس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ جمہورعلماء مالکیہ‘ شافعیہ‘ حنابلہ اور حنفیہ کی ایک جماعت کے نزدیک مجتہد ہونا‘قاضی کی بنیادی شرائط میں داخل ہے۔جبکہ حنفیہ کی ایک دو سری جماعت کے نزدیک قاضی کا مجتہد ہونا واجب تو نہیں لیکن مستحب امر ضرور ہے ۔ پس مجتہد قاضیوں کو عہدہ قضاء دینے کی صورت میں یہ وجہ جواز پیدا ہی نہیں ہوتی۔ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
Flag Counter