اس علمی مواد کے ان مقدمات میں اطلاق کی صورت میں کہ جو ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں ‘ اختلاف پایا جاتاہے۔کیونکہ(خارج میں )مقدمات کے احوال و ظروف اور ان سے متعلقہ علامات اور کو محیط حالات کے اختلاف کی وجہ سے لوگوں کے مابین ان مقدمات سے متعلقہ نصوص شریعت کے مفاہیم میں اختلاف ہو جاتا ہے باوجودیکہ وہ احکامات اپنی جگہ واضح‘ روشن اور اپنے ان مصادر میں معلوم ہوتے ہیں کہ جن کاعلم راجح قول کے مدون کے علم کی مانند نہیں ہے۔‘‘
آٹھویں دلیل
بعض ممالک اسلامیہ میں راجح فقہی اقوال کی تقنین کے تجربات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکمران اور عامۃ الناس شرعی احکام کے مطابق فیصلوں سے بدظن ہو گئے اور دل کی تسلی کی خاطر عائلی زندگی اور بعض سزاؤں میں شرعی احکام کی تقنین کے علاوہ بالآخر باقی جمیع معاملات میں وضعی وانسانی قوانین کی طرف رجوع کیا گیا۔’أبحاث ہیئۃ کبار العلماء‘میں ہے:
’’ فقد جربوا ھذا التقنین وألزموا القضاۃ العمل بہ فلم یأتھم بخیر ولم یرفع اختلاف القضاۃ فی الأحکام وإنما أدی بھم إلی الحکم بالقوانین الوضعیۃ فیما عدا الأحوال الشخصیۃ وبعض العقوبات۔‘‘[1]
’’مختلف ممالک نے تقنین کے تجربات کیے ہیں اور قاضیوں پر اس کے مطابق عمل کو لازم قرار دیا ہے لیکن ان تجربات سے کوئی خیر برآمد نہیں ہوئی اور نہ ہی فیصلوں میں قاضیوں کا باہمی اختلاف ختم ہوا۔ پس ان تجربات نے ان(ممالک)کو عائلی زندگی اور بعض سزاؤں کے علاوہ باقی معاملات میں فیصلوں کے لیے وضعی قانون کی طرف رجوع پر مجبور کر دیا۔‘‘
نویں دلیل
ایک اعتراض یہ بھی کیا گیاہے کہ فقہی اقوال کی تقنین اجتہاد کا درواز ہ بند کر دے گی اور قانون سازی کے عمل کی صورت میں اجتہادی تحریک‘ فکری نشوونمااور علمی مباحثے و مکالمے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ڈاکٹر عبد الرحمن الجرعی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أثر التقنین علی حرکۃ الفقہ عامۃ وعلی القضاۃ خاصۃ حیث یؤدی إلی تعطیل الثروۃ الفقھیۃ لأن عمل القضاۃ سیرتبط بھذہ القوانین شرحاً وتفسیرا مما یعطل التعامل مع کتب الفقہ ویحجر علی القضاۃ ویوقف حرکۃ الاجتھاد والنشاط الفکری لتلبیۃ مطالب الحیاۃ المتغیرۃ ومواجھۃ الأنظمۃ والأعراف والمعاملات المتجددۃ۔‘‘[2]
’’فقہی تحریک پر بالعموم اورقاضیوں پر بالخصوص تقنین کے اثرات اس طرح مرتب ہوں گے کہ یہ عمل فقہی ورثے کو بے کار بنادے گا کیونکہ قاضی ان قوانین کی تشریح و تفسیر میں مصروف ہو جائیں گے اور یہ عمل کتب فقہ کے ساتھ ان کا تعامل ختم کر دے گااور قاضیوں کو تصرف سے روک دے گا۔ا سی طرح تقنین کا یہ عمل اجتہاداور فکری سرگرمیوں کو بھی روک دے گا۔‘‘
مولانا عبد الرحمن مدنی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ تقنین سے فرد و معاشرہ کو ایک خاص تعبیر شریعت کی تقلید کا پابند قرار دے کے اجتہاد کے دروازے ان پر بند کر دیے جاتے ہیں ۔قرآن مجید کی نظر میں اس کا نام’ إصر وأغلال‘ ہے۔‘‘[3]
اس کاجواب یہ دیا گیا ہے کہ فقہی اقوال کی تقنین کی صورت میں قاضیوں کے اجتہاد پر کلی طور پر پابندی نہیں ہوگی بلکہ نئے پیش آمدہ
|