کریں گے۔ فی الوقت یہ بتلانا مقصود ہے کہ قانون سازی کا یہ عمل ا سی صورت بہتر اور مطلوب مقاصد حاصل کر سکتا ہے‘ جبکہ اس کی بنیاد اجتماعی اجتہاد ہو۔ اگر کسی ایک شخص کی اجتہادی آراء کو بطور قانون نافذ کر دیا جائے گا تو اس میں بہت سی کوتاہیاں ہو گی۔علاوہ ازیں اجتماعی اجتہاد کی بنیا د پر قانون سازی کرنے کی صورت میں عوام الناس کا اطمینان نسبتاً زیادہ حاصل ہو گا۔ شیخ أحمد شاکر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ثم إن الاجتھاد الفردی غیر منتج فی وضع القوانین‘ بل یکاد یکون محالاً أن یقوم بہ فرد أو أفراد‘ و العمل الصحیح المنتج ھو الاجتھاد الجماعی‘ فإذا تبودلت الأفکار‘ وتداولت الآراء‘ ظھر وجہ الصواب‘ إن شاء اللّٰہ۔‘‘ [1]
’’ انفرادی اجتہاد قوانین کے وضع کرنے میں غیر مفید ہے بلکہ شاید ناممکن ہے کہ ایک یا کچھ افرادمل کر یہ کام کر سکیں ۔ اس کا صحیح و مفید طریقہ کار یہی ہے کہ اجتماعی اجتہاد کے ذریعے یہ کام ہو۔ جب افکار کا باہم تبادلہ خیال ہو جائے اور آراء عام ہو جائیں تو صحیح رائے سامنے آ ہی جاتی ہے۔ اگر اللہ چاہے !۔‘‘
شیخ أحمد شاکر رحمہ اللہ ایک اور جگہ اسلامی ریا ست میں قانون سازی کا طریقہ بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’فالخطۃ العملیۃ فیما أری: أن تختار لجنۃ قویۃ من أ ساطین رجال القانون وعلماء الشریعۃ‘ لتضع قواعد التشریع الجدید غیر مقیدۃ برأی‘ أو مقلدۃ لمذھب‘ إلا نصوص الکتاب و السنۃ‘ وأمامھا أقوال الأئمۃ وقواعد الأصول وآراء الفقھاء‘ وتحت أنظارھا رجال القانون کلھم‘ ثم ت ستنبط من الفروع ما تراہ صواباً‘ منا سباً لحال الناس وظروفھم‘ مما یدخل تحت قواعد الکتاب والسنۃ‘ ولا یصادم نصاً‘ولا یخالف شیئاً معلوماً من الدین بالضرورۃ۔‘‘[2]
’’میری رائے میں اس کا عملی طریقہ کار یہ ہے کہ ماہرین قانون اور علمائے شریعت کے ماہرین کی ایک جماعت منتخب کی جائے جو کسی خاص مذہب کی تقلید یا کسی خاص رائے کی پابندی کے بغیر ‘نصوص قرآن و سنت کی روشنی میں ‘ نئی قانون سازی کے قواعد و ضوابط ایجاد کرے۔ یہ کمیٹی سابقہ أئمہ کے أصول اور فقہی آراء کو سامنے رکھے۔ تمام ماہرین قانون اس کمیٹی کی سرپر ستی میں ہوں اور پھر یہ کمیٹی لوگوں کے أحوال و ظروف کے منا سب اور کتاب و سنت کے قواعد کے تحت فروعی مسائل مستنبط کرے ۔ لیکن اس کے اجتہادات نہ تو کسی نص سے متصادم ہوں اور نہ ہی دین کی کسی ضروری شیء کے انکار پر مبنی ہوں ۔‘‘
عوامی مسائل میں اجتماعی اجتہاد
نفس مسئلہ کے اعتبار سے مسائل کی دو قسمیں ہیں ۔ پہلی قسم تو ان مسائل کی ہے جو کسی شخص کی انفرادی زندگی سے متعلق ہیں جیسا نماز‘ روزہ اور ذاتی معاملات وغیرہ ۔ مسائل کی دو سری قسم وہ ہے جن کی نوعیت عمومی ہوتی ہے یعنی وہ پوری قوم یا قوم کی اکثریت کے مسائل ہوتے ہیں ۔لہذا ایسے مسائل میں اجتماعی اجتہاد کے ذریعے کوئی فیصلہ جاری کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر خلیفہ وقت کی تقرری پوری امت کا اتفاقی مسئلہ ہے۔ اس مسئلے میں پوری امت یا امت کے منتخب نمائندوں کی اجتماعی رائے کی روشنی میں خلیفہ وقت کا انتخاب ہونا چاہیے۔
أ ستاذ علی ح سب اللہ حفظہ اللہ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ احکام شرعیہ کی د وقسمیں ہیں :
پہلی قسم کے احکامات وہ ہیں ‘ جن کا تعلق عبادات سے ہے یعنی وہ براہ را ست اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے متعلق امور ہیں ۔ یہ ایسے أمور ہیں کہ جن میں اختلافات کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ ان مسائل میں انفرادی اجتہاد بھی کفایت کر جاتا ہے بشرطیکہ کہ کسی میں اس کی شروط پوری ہوں ۔ دو سری قسم کے مسائل وہ ہیں جو معاملات سے متعلق ہیں ۔ ان کے بارے میں مزید گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
|