’’ومنھا ما یتعلق بمعاملاتھم بعضھم مع بعض‘ واختلاف الأحکام فی ھذا مجاف للنظام ومجانب للعدل‘ وخاصۃ فی البیئۃ الواحدۃ ‘ والبیئات المتماثلۃ‘ والاجتھاد ھنا إنما یفید فائدۃ عملیۃ إذا اتجہ وجھۃ جماعیۃ ‘ بأن تکون ھناک جماعۃ من المجتھدین ینظرون فیما جد من الحوادث‘ ویستنبطون مستعینین بأنوار من آراء السابقین مایلائم أحوالھم من الأحکام‘ وتکون أحکامھم ھذہ نافذۃ فی النا س‘ یلزمون جمیعا باتباعھا‘ ویحکم القضاۃ بمقتضاھا۔‘‘[1]
’’اور ان میں سے بعض وہ ہیں جو ایک دو سرے سے باہمی معاملات سے متعلق ہیں ۔ ان مسائل میں اختلاف نظام سے دوری اور عدل سے اجتناب کی طرف لے جاتا ہے‘ خاص طور پر جبکہ معاشرہ ایک ہی ہو یا ایک ہی جی سے معاشرے ہوں ۔ ایسی جگہ میں وہی اجتہاد کوئی علمی فائدہ دیتا ہے جو اجتماعی جہت پر مبنی ہو یعنی علمائے مجتہدین کی ایک جماعت نئے حوادث میں غور و فکر کرے اور سابقہ علماء کی آراء کی روشنی میں اپنے أحوال کے مطابق اجتہادی آراء مستنبط کرے۔ یہ اجتماعی اجتہادات نافذ العمل ہوں گے ۔ ریا ست کے تمام افراد پر ان کی اتباع لازم ہو گی اور قاضی ان کے مقتضیات کے مطابق(عدالتوں میں )فیصلے کریں گے۔‘‘
د سمبر ۱۹۸۹ء میں اسلامی فقہ اکیڈمی ‘ انڈیا کی طرف سے ہمدرد کنونشن سنٹر‘ نیو دہلی میں دو سرا فقہی سیمینار منعقد ہوا۔ اس سیمینار کاصدارتی خطبہ جناب مولانا رفیع عثمانی حفظہ اللہ نے پڑھا‘ جس کا موضوع ’ تغیر پذیر حاالات میں اجتماعی اجتہاد کی ضرورت‘تھا۔مولانا اپنے اس خطبے میں اجتماعی اجتہاد کی ضرورت و اہمیت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ میرے والد محترم(یعنی مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ )فرماتے تھے‘ ایسے اجتماعی مسائل جو پوری امت کو در پیش ہیں یا ملک کے تمام مسلمانوں کو درپیش ہیں ان میں انفرادی فتاوی نہ دیئے جائیں ۔ ان میں باہمی مشورہ ضروری ہے۔ اور تمام بزرگوں کا یہی طریقہ رہا ہے۔ چناچہ پاکستان میں بھی حضرت والد ماجد رحمہ اللہ اور حضرت مولانا محمدیو سف بنوری رحمہ اللہ نے ایک مجلس قائم کر رکھی تھی جو آج بھی ’’ مجلس تحقیق مسائل حاضرۃ‘‘ کے نام سے موجودہے۔ اس مجلس کی طرف سے کئی ایک ر سائل شائع ہوئے‘ ایک ایک مسئلہ پر بعض اوقات دو دو سا ل تحقیق ہوتی رہی۔‘‘[2]
ڈاکٹر یو سف القرضاوی حفظہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے کہ عمومی اور عوامی نوعیت کے مسائل میں انفرادی اجتہاد کی بجائے اجتماعی اجتہادکے طریق کا انتخاب کرنا چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ینبغی فی القضایا الجدیدۃ أن تنتقل من الاجتھاد الفردی إلی الاجتھاد الجماعی الذی یتشاور فیہ أھل العلم فی القضایا المطروحۃ‘ وخصوصاً فیما یکون لہ طابع العموم‘ ویھم جمھور النا س‘ فرأی الجماعۃ أقرب إلی الصواب من رأی الفرد‘ مھما علا کعبہ فی العلم‘ فقد یلمح شخص جانباً فی الموضوع لا ینتبہ لہ آخر‘ وقد یحفظ شخص ما یغیب عن غیرہ‘ وقد تبرز المناقشۃ نقاطاً کانت خافیۃ‘ أو تجلی أمورا کانت غامضۃ‘ أو تذکر بأشیاء کانت من سیۃ‘ وھذہ من برکات الشوری‘ ومن ثمار العمل الجماعی دائماً‘ عمل الفریق‘ أو عمل المؤ س سۃ‘ بدل عمل الأفراد۔‘‘[3]
’’جدید مسائل میں ہمیں انفرادی اجتہا دکی بجائے اجتماعی اجتہاد کی طرف منتقل ہونا چاہیے کہ جس میں اہل علم پیش آمدہ مسائل میں باہمی مشاورت سے کوئی فیصلہ جاری کرتے ہیں خصوصاً جبکہ وہ مسئلہ عمومی نوعیت کا ہو اور عامۃ الناس کی اکثریت سے متعلق ہو۔ کسی شخص کا علمی مقام و مرتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو‘ پھر بھی اجتماعی رائے میں انفرادی رائے کی نسبت صحت کا امکان زیادہ ہوتاہے۔بعض اوقات ایک شخص کسی
|