’مجمع أہل البیت‘شامل ہے۔ان اداروں کے قیام کے مقاصد‘ اسباب یا محرکات کئی ایک تھے۔ مختلف علماء نے اپنے مقالہ جات میں ان أ سباب و محرکات کوبیان کیا ہے۔ ذیل میں ہم ان میں چند ایک کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں ۔
علمی و فکری وحدت
اجتماعی اجتہاد کے محرکات و أ سباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس سے امت مسلمہ میں فکری و علمی وحدت حاصل ہو گی۔ نئے پیش آمدہ مسائل میں جب مختلف مکاتب فکر‘ ممالک اور مدار س دینیہ سے تعلق رکھنے والے علماء فتوی جاری کرتے ہیں تو ایک ہی فتوے میں متعدد متضاد آراء سامنے آتی ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کی ترقی کی وجہ سے یہ باہم متضاد فتاوی اسلامی معاشروں میں بہت تیزی پھیل جاتے ہیں اور سائلین کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں ۔ بعض اوقات تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کے فتاوی میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ پاکستان میں حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے بعض علماء اسلامی بینکاری کو جائز جبکہ بعض دو سرے اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں ۔ لہذا ایک ہی مسلک کے ماننے والوں کے مابین حلال و حرام کے اختلاف پید ا ہوگئے ہیں ۔ بعض مسائل میں تویہ اختلاف ایک دو سرے کے خلاف بیان بازی‘ الزامی تقاریر‘ جوابی تحریر اور طعن و تشنیع تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اجتماعی فتوی کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے تاکہ فقہی مسائل و فتاوی کے اختلافات کم سے کم واقع ہوں ۔ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ الأمۃ الاسلامیۃ أحوج ما تکون إلی اجتماع کلمتھا‘ واتحاد رؤیتھا فی ما یحل مشاکلھا‘ لتبنی علی ذلک توحدھا فی المواقف والتعاملات‘ ولن یأتی ذلک إلا إذا کانت حلولھا لمشاکلھا وقضایاھا العامۃ نابعۃ من رؤیۃ جماعیۃ ت سعی إلی جمع الکلمۃ وتوحید الصف‘ بعیداً عن الرؤی الفردیۃ المتنافرۃ‘ التی تأتی علی الأمۃ بالتفرق فی الأفکار والتشتت فی الصف والتضارب فی الأحکام‘ مما یجعل الناس فی حیرۃ من أمرھم‘ وفیما ینبغی أن یعملوا بہ فی القضایا العامۃ التی تحتاج إلی توحید فی الموقف‘ واتحاد فی الحکم‘ ولعل الاجتھاد الجماعی ھو ال سبیل إلی إیجاد ذلک۔‘‘[1]
’’ امت اسلامیہ کو اس وقت ان تمام چیزوں کی شدید ضرورت ہے جن سے اس کی وحدت مضبوط ہوتی ہو اور علماء جن مسائل کا حل پیش کریں ‘ ان میں اتحاد رائے ہوتا کہ امت اپنی پالی سیوں اور باہمی تعامل میں یک سیانیت پیدا کر سکے۔ اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک امت باہم منافرت پیدا کرنے والی انفرادی آراء سے دورہوتے ہوئے اپنے مسائل اور مشکلات کا حل ایسی اجتماعی رائے کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے‘ جو امت کو جمع کر دے اور ان کی صفوں میں اتحاد پیدا کر دے۔ انفرادی آراء امت کے نظریات میں تفرقہ ‘ صفوں میں افتراق اور أحکام میں تشدد پید اکرتی ہیں ۔ ان وجوہات سے عامۃ الناس انفرادی فتاوی کے معاملے میں حیران و پریشان ہو جاتے ہیں ۔ امت کو عمومی مسائل میں ایک ہی رائے اور حکم کے حصول کی خاطر‘ ا سی طریقہ کار پر عمل کرناچاہیے۔ شاید اجتماعی اجتہاد ہی وہ ر ستہ ہے‘ جس کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘
یہ بات بھی واضح رہے کہ امت کی علمی و فکری اتحاد کی اہمیت مسلم ہے لیکن اتباع حق کے جذبے پر اس محرک کو غالب نہیں ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کیمرے کی تصویر کے جواز و عدم جواز کے بارے میں کوئی مشورہ کرنے کے لیے علماء کی ایک جماعت باہمی مذاکرہ کرتی ہے۔اور اگر اس مجلس کے بعض اراکین دلائل اور فکر و نظرکے اختلاف کے باوجود اجتماعی رائے کے حصول کی خاطر اپنی ان انفرادی آراء سے رجوع کر لیتے ہیں ‘ جن کو وہ حق سمجھتے ہیں یا اتحاد امت کے جذبے کی خاطر بغیر غور و فکر اور تحقیق کے مجلس کے اجتماعی فتوی کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں تو یہ ایک نامنا سب طرز عمل ہے۔اسلام میں اجتماعیت مطلوب ہے لیکن اس قدر بھی نہیں کہ مصنوعی طور پر پیدا کی جائے بلکہ باہمی آزادانہ مشاورت اور بحث و تمحیص کے نتیجے میں اگر علماء کی ایک جماعت کا کسی مسئلے کے شرعی حل پر اتفاق ہوتا نظر آتا ہے تو یہ مستحسن أمر ہے۔ پس
|