فصل سوم
دور حاضر میں اجتماعی اجتہاد کے محرکات
دین اسلام ایک مکمل ضابط حیات ہے‘ جس میں زندگی کے تمام گوشوں کے لیے رہتی دنیا تک رہنمائی موجود ہے۔دین اسلام کے بنیادی مصادر قرآن و سنت ہیں ۔اگر کسی مسئلے کا صریح حل قرآن و سنت میں موجود نہ ہو تو پھر قرآن و سنت ہی کی و سعتوں اور گہرائیوں سے اس کا حل قیا س‘ ا جتہاد اور قواعد عامہ کے أصول و ضوابط کی روشنی میں مستنبط کیا جاتا ہے۔ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم دور نبوت میں جن مسائل میں وحی نازل نہیں ہوئی ہوتی تھی‘ ان میں اجتہاد فرما لیا کرتے تھے۔ ا سی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام ] کی بھی اجتہادی تربیت فرمائی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی ہی میں وقتاً فوقتاً ان کے اجتہادات کی تصحیح یا تائیدفرماتے رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں اجتہاد کا یہ عمل ریا ستی وقومی سطح پر منظم ہوا۔ تابعین رحمہم اللہ کے دور میں بھی سلطنت اسلامیہ کے و سیع ہوجانے کی وجہ سے نئے نئے مسائل سامنے آئے اور روزہ مرہ زندگی کے معاملات میں اجتہاد کی ضرورت و اہمیت اور بڑھ گئی۔ تبع تابعین رحمہم اللہ اور ائمہ اربعہ کے زمانہ میں مسلمان عربوں کے دو سری اقوام کے ساتھ میل جول اور اختلاط کی وجہ سے باہمی معاملات میں پیچیدگیاں بڑھ گئیں ‘ علماء نے مستقل أصول وضع کیے اور ان کی روشنی میں اجتہادی عمل کو اس کے عروج تک پہنچایا۔ کئی ایک مکاتب فکر وجود میں آ گئے اور ہر مکتب فکر کے أئمہ نے اپنے اصول و فروع کو مدون کیا۔چناچہ فقہ اسلامی کے نام سے ایک بہت بڑا علمی ذخیرہ وجود میں آ گیا‘ جس میں بلاشبہ زندگی کے لاکھوں مسائل کے بارے میں شرعی رہنمائی جاری کی گئی تھی۔ پس أئمہ أربعہ کے دور کے بعد یعنی چوتھی صدی ہجری میں اجتہاد کا عمل رک گیااور یہ سمجھ لیا گیا کہ شاید اس کا دروازہ اب قیامت تک کے لیے بند ہو گیا ہے حالانکہ چوتھی صدی ہجری کے بعد اجتہاد کے جاری نہ ہونے کی وجہ فطری تھی یعنی اجتہادی عمل کی ضرورت پوری ہو گئی تھی لہٰذا کثر و بیشتر أئمہ سلف نے سابقہ فقہی ذخیرے کی شروحات اور توضیح و تنقیح میں اپنی زندگیاں کھپائیں ۔ وقت کے مسائل و سوالات کا کافی و شافی جواب أئمہ سلف نے اپنے اقوال‘ کتب اور فتاوی کے ذریعہ دے دیا تھا لہذا ا سی کی اتباع اور اس میں اضافے کا کام جاری رہا۔
سترہویں صدی ہجری کے صنعتی انقلاب ‘بی سویں صدی ہجری کی معاشی‘ معاشرتی اور سیا سی تبدیلیوں اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں سارے عالم کو متاثر کیا‘ وہاں مذہب کی دنیا میں بھی أن گنت سوال پیدا کر دیے۔ صنعتی ترقی اور معاشی تبدیلیوں کی وجہ سے کاروبار کی ہزاروں ایسی نئی شکلیں متعارف ہوئیں کہ جن کی شرعی حیثیت معلوم کرنا وقت کا ایک اہم تقاضا تھا۔ سیا سی انقلاب نے جمہوریت‘ انتخابات‘ پارلیمنٹ‘ آئین اور قانون جی سے نئے تصورات سے دنیا کو آگاہی بخشی۔ معاشرتی تبدیلیوں سے مرد وزن کے اختلاط اور باہمی تعلق کی حدود و دائرہ کار جی سے مسائل پیدا ہوئے۔میڈیکل سائن س اور ٹیکنالوجی نے ایجادات کی دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا‘ جس سے کئی ایک ایجادات کے بارے میں شرعی حکم جاننے کی ضرورت محسوس ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ انی سویں صدی کے أواخر اور بی سویں صدی کے آغاز میں عالم اسلام کے اکثر و بیشتر ممالک میں اجتہاد کی تحریکیں برپا ہوئیں ۔تہذیب و تمد ن کے ارتقاء کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ہزاروں نہیں بلکہ لکھوکھا مسائل میں علماء نے رہنمائی کی۔ فتاوی کی ہزاروں جلدیں مرتب ہوئیں اور اجتہاد کے عمل کو منظم انداز میں آگے بڑھانے کے لیے کئی ایک ادارے وجود میں آ نا شروع ہو گئے ۔
بیسیویں صدی ہجری کے نصف آخر میں اجتماعی اجتہاد کے لیے کئی ایک قومی اور عالمی سطح کے اداروں کی بنیاد رکھی گئی تاکہ اس دور میں اجتہاد کے مشکل ترین عمل کو اجتماعی صورت میں فروغ دیا جائے۔ ان اداروں میں مصر میں ’مجمع البحوث الاسلامیۃ‘پاکستان میں ’اسلامی نظریاتی کون سل‘ یورپ میں ’یورپی مجلس برائے افتاء و تحقیق‘مکہ میں ’المجمع الفقھی الاسلامی‘ سوڈان میں ’مجمع الفقہ الاسلامی‘شمالی امریکہ میں ’مجمع فقہاء الشریعۃ‘اردن میں ’المجمع الملکی لبحوث الحضارۃ الاسلامیۃ‘ہندو ستان میں ’ اسلامی فقہ اکیڈمی‘ کویت میں ’المنظمۃ الاسلامیۃ للعلوم الطبیۃ‘جدہ میں ’مجمع الفقہ الاسلامی‘ اور مراکش کی
|