Maktaba Wahhabi

66 - 214
یہی قول امام احمد رحمہ اللہ کا بھی ہے ۔امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’فإذا لم یکن عند الإمام أحمد فی المسألۃ نص ولا قول الصحابۃ أو واحد منھم ولا أثر مر سل أو ضعیف عدل إلی الأصل الخامس وھو القیاس فا ستعملہ للضرورۃ۔‘‘[1] ’’ پس جب امام احمد رحمہ اللہ کے پاس کسی مسئلے میں نص یا صحابہ کا قول یا قول صحابی یا کوئی مر سل روایت یا ضعیف خبر نہیں ہوتی تو وہ( کسی مسئلے کے حل کے لیے)اپنے پانچویں اصول کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور وہ قیاس ہے ۔ پس وہ قیاس کو ضرورتا ًاستعمال کرتے ہیں ۔‘‘ امام ابن قیم رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے ۔وہ لکھتے ہیں : ’’یصار إلی الإجتھاد وإلی القیاس عند الضرورۃ۔وھذا ھو الواجب علی کل مسلم إذ اجتھاد الرأی إنما یباح للمضطر کما تباح لہ المیتۃ والدم عند الضرورۃ ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ وکذلک القیاس إنما یصار إلیہ عند الضرورۃ۔قال الإمام أحمد: سألت الشافعی عن القیاس فقال: عند الضرورۃ۔ذکرہ البیھقی فی مدخلہ۔‘‘[2] ’’اجتہاداور قیاس ضرورت کے وقت ہوگااور یہی بات ہر مسلما ن پر واجب ہے کیونکہ رائے کا اجتہادمضطر کے لیے مباح ہے جیسا کہ اس کے لیے ضرورت کے وقت مردار اور خون مباح ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : پس جو بھی مجبور کر دیا گیا اس حال میں کہ وہ نہ تو زیادتی کرنے والاہو اور نہ ہی حد سے بڑھنے والا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے‘بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ا سی طرح قیاس بھی ضرورت کے وقت ہو گا۔ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے قیاس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا:ضرورت کے وقت ہو گا۔ اس اثر کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’مدخل‘ میں بیان کیا ہے ۔‘‘ امام شاطبی رحمہ اللہ نے بھی ا سی موقف کو اختیار کیا ہے ۔ انہوں نے اجتہاد کی بنیادی طور پر دو قسمیں کی ہیں ۔پہلی قسم کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’الاجتھاد علی ضربین: أحدھما لا یمکن أن ینقطع حتی ینقطع أصل التکلیف وذلک عند قیام الساعۃ ۔ والثانی یمکن أن ینقطع قبل فناء الدنیا۔فأما الأول فھو الاجتھاد المتعلق بتحقیق المناط وھو الذی لا خلاف بین الأمۃ فی قبولہ۔ومعناہ أن یثبت الحکم بمدرکہ الشرعی لکن یبقی النظر فی تعیین محلہ۔‘‘[3] ’’اجتہاد دو قسم کا ہے ان میں سے ایک قسم کا اجتہادتو وہ ہے جو اس وقت ختم ہو گا جب تکلیف ختم ہو جائے گی اور یہ قیامت کے وقت ہوگا(یعنی پہلی قسم کااجتہاد قیامت تک جاری رہے گی)۔جہاں تک اجتہاد کی دو سری قسم کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں ممکن ہے کہ وہ قیامت سے پہلے ہی ختم ہو جائے۔پہلی قسم کااجتہادتحقیق مناط( کسی شرعی حکم سے نکالی ہوئی علت کا غیر منصوص اشیاء میں اثبات) سے متعلق ہے ۔تحقیق مناط کا معنی یہ ہے کہ کسی چیز کا حکم شرعی دلیل سے ثابت ہو لیکن اس حکم کے محل کی تعیین میں بھی غور و فکر کی گنجائش موجود ہو۔‘‘ آگے چل کر اجتہاد کی دو سری قسم پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’وأما الضرب الثانی وھو الاجتھاد الذی یمکن أن ینقطع فثلاثۃ أنواع أحدھا المسمی بتنقیح المناط وذلک أن یکون الوصف المعتبر فی الحکم مذکورا مع غیرہ فی النص فینقح بالاجتھاد حتی یمیز ما ھو معتبر مما ھو ملغی۔۔۔والثانی المسمی بتخریج المناط وھو راجع إلی أن النص الدال علی الحکم لم یتعرض للمناط فکأنہ أخرج بالبحث وھو الاجتھاد القیا سی وھو معلوم والثالث ھو
Flag Counter