Maktaba Wahhabi

140 - 214
علم واحد‘ بل لا بد من النظر فیھا من خلال کل العلوم المتصلۃ بتلک القضیۃ‘ وھذا لن یقوم بہ إلا جماعۃ‘ ویصعب إن لم یتعذر أن یقوم بہ فرد‘ لأنہ لیس بالإمکان أن یجمع شخص واحد بین المعرفۃ للعلوم الشرعیۃ بالصورۃ التی اشترطھا الأصولیون وبین المعرفۃ المتخصصۃ لمشاکل البیئۃ والعصر‘ فکان لا بد من أن یکون الاجتھاد فی ھذہ القضایا من خلال مجموعۃ۔‘‘[1] ’’ ہمارے معاصر مسائل میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ متعدد علوم نے ان کو گھیر رکھا ہے اور وہ اس سادہ شکل میں نہیں ہیں جیسا کہ پہلے ہوتے تھے۔ آج ایک مسئلہ ایک سے زائد مثلاً معاشرت‘ معیشت‘ سیا ست‘ قانون اور تربیت وغیرہ سے متعلقہ علوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور اس مسئلے پر صرف ایک علم کی روشنی میں غور و فکر کافی نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک لازمی أمر ہے کہ ایسے مسائل میں اس مقدمے سے متعلق تمام علوم کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جائے۔ اس کام کے لیے ایک جماعت کھڑی ہو گی تو یہ کام ہو گا۔ اگر ایک فرد اس کام کے لیے کھڑا ہو تو ناممکن نہ سہی کم از کم مشکل ضرور ہو گاکیونکہ اکیلے شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ان علوم شرعیہ سے بھی واقف ہو جو أصولیین نے اجتہا دکی شرائط میں بیان کیے ہیں اور معاصر معاشرے و ماحول کی مشکلات کا بھی خصوصی ادراک رکھتا ہو۔ پس اس قسم کے مسائل میں فقہاء کی ایک جماعت کی طرف سے اجتہاد کا یہ فریضہ سر انجام دینا چاہیے۔‘‘ ایک اور مقام پرڈاکٹر شعبان محمد ا سماعیل حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’من الأ سباب التی تجعل الاجتھاد الجماعی ذا أھمیۃ بالغۃ فی القضاء علی الفتاوی الفردیۃ المخالفۃ لمنھج الاسلام‘ وتضبطھا: نشؤ التخصص المنفرد‘ والذی عبر عنہ العلماء بالتخصص الدقیق‘ ومعناہ: أن العالم یتخصص فی درا سۃ فرع من فروع العلم۔۔۔الأمر الذی یجعل أکثر العلماء فی ھذاا لعصر لا یحیطون بکل العلوم والمعارف‘ کما کان شائعاً لدی ال سابقین من العلماء‘ حیث کان الواحد ملماً بجمیع العلوم غیر الشرعیۃ مثل الطب والھند سۃ والفلک وما إلی ذلک من العلوم الإن سانیۃ۔‘‘[2] ’’وہ اسباب جن کی وجہ سے اجتماعی اجتہاد‘ منہج اسلام کے خلاف انفرادی فتاوی پر‘ قضاء کی صورت میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے‘ ان میں سے ایک انفرادی تخصص کا رجحان ہے‘ جس کو علماء باریک فنی تخصص کانام دیتے ہیں ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ایک عالم دین فروعات علم میں سے کسی فرع میں تخصص کرتا ہے۔۔۔معاملہ یہ ہے کہ اس زمانے میں علماء تمام علوم و معارف کا احاطہ نہیں کر سکتے جیسا کہ سابقہ علماء کا طرز عمل تھا۔ کیونکہ ہمارے پچھلے علماء شرعی علوم کے علاوہ طب‘ الجبرا اور علم فلکیات وغیرہ جی سے علوم انسانی کا بھی ادراک رکھتے تھے ۔‘‘ علوم کی و سعتوں کا احاطہ نہ کرنے کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ انفرادی اجتہاد پر مطلقاً پابندی ہی لگا دی جائے بلکہ انفرادی معاملات میں انفرادی اجتہاد پر پھر بھی عمل ہو گا لیکن کچھ مخصوص اور عمومی نوعیت کے مسائل میں اجتماعی اجتہاد ہی کو منہج و طریقہ کار بنایا جائے۔ ڈاکٹر شعبان محمد ا سماعیل حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’والدعوۃ إلی الاجتھاد الجماعی وأنہ أولی من الاجتھاد الفردی لا یعنی إھمال ھذا الاجتھاد‘ لأنہ سبیل ذلک‘ أو أ سا سہ یقوم علیہ۔‘‘[3] ’’اجتماعی اجتہاد کی طرف بلانے کااور ا سے انفرادی اجتہاد سے بہتر قرار دینے کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں ہے کہ انفرادی اجتہاد کو سرے ہی سے ختم کر دیا جائے کیونکہ اجتماعی اجتہاد کا ر ستہ بھی انفرادی اجتہاد سے ہو کر جاتا ہے اور وہ اس کی بنیاد پر قائم ہے۔‘‘
Flag Counter