Maktaba Wahhabi

167 - 214
’’پھر حکومت مصر نے ایک فقہی مذہب کی پابندیوں سے نکلنے کے لیے ایک نیا قدم اٹھایا اور ۹د سمبر ۱۹۳۶ء میں وفاقی کابینہ نے وزارت عدل و انصاف کی ایک سفارش کہ جس میں اس مسئلے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دی گئی تھی ‘ کی حمایت کی۔ اس تجویزمیں یہ تھاکہ یہ کمیٹی ایک ایسے قانونی منصوبے کا آغاز کرے گی کہ جس کے ذریعے عائلی قوانین سے متعلقہ مسائل‘ اوقاف‘ وراثت اور وصیت وغیرہ کے بارے میں قانون سازی کی جائے گی۔یہ قانون سازی صرف ایک فقہی مذہب کے دائرے میں رہ کر نہیں ہو گی بلکہ کمیٹی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ جمیع فقہاء کے فتاوی اورخصوصاً ان آراء سے ا ستفادہ کرے جو لوگوں کی مصالح اورخارج میں موجود معاشرتی تبدیلیوں کے لیے منا سب و مفید ہوں ۔کمیٹی کو یہ بھی اختیار تھا کہ وہ جس مسئلے میں یہ محسوس کرے کہ اس کے بارے میں شکایت عا م ہے یا اس میں قانون سازی کی شدید ضرورت ہے تو و ہ اس مسئلے کو قانون سازی کے لیے بنیاد بنا سکتی ہے۔‘‘ اس کمیٹی نے جلد ہی اپنے کام کا آغاز کر دیا اور سب سے پہلے قانون وراثت کو مدون کیا کیونکہ اس میں اختلافات بہت کم ہیں ۔کمیٹی نے معاشرے میں پائے جانے والے بعض جدید مسائل و ابحاث کے تناظر میں کچھ ایسے قوانین بھی مرتب کیے جو معروف فقہی مذاہب کے مطابق نہ تھے۔ ا ستاذ محمد سلام مدکور حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وقد بدأت بالنظر فی مشروع قانون المواریث لأن التغییر فیہ ضئیل فخرج فی سنۃ ۱۹۴۳م برقم ۷۷ شاملاً لجمیع أحکام الإرث ۔۔۔ومن أھم القواعد التی جاء بھا القانون مغایراً ماکان علیہ العمل توریث الإخوۃ والأخوات مع الجد الصحیح بعد أن کان حاجباً لھم و کذلک الرد علی أحد الزوجین بما بقی بعد فرضہ إذا لم یوجد للمتوفی أی قریب یرثہ فھو أولی بما بقی من العاصب السببی۔‘‘[1] ’’ اس کمیٹی نے اپنے کام کا آغازقانون وراثت سے کیا کیونکہ اس میں تبدیلی ن سبتاًکم تھی۔ پس ۱۹۴۳ء میں جمیع احکام وراثت پر مشتمل قانون ۷۷جاری ہوا ۔۔۔ اس قانون کے ان اہم ضوابط میں سے کہ جو معمول بہ فتاوی کے خلاف ہیں ‘ ایک یہ ہے کہ بھائیوں اور بہنوں کو’ جد صحیح‘ کی موجودگی میں اس وقت بھی وارث شمار کیا گیا ہے جبکہ دادا ان کو محروم کر رہا ہو۔ا سی طرح میاں یا بیوی میں سے ایک اگر فوت ہوجائے تو بحثیت ذوی الفروض اپنا حصہ لینے کے بعد بھی ان میں کوئی ایک ذوی الفروض رشتہ داروں کو ورثہ کی ادائیگی کے بعد بقیہ مال لے سکتا ہے بشرطیکہ متوفی کا کوئی قریبی رشتہ دار(عصبہ ن سبی )موجود نہ ہو کیونکہ میاں ‘ بیوی کا تعلق عصبہ سببی(مالک اور اس کے آزاد کردہ غلام کے تعلق)کی نسبت زیادہ قربت کا ہوتا ہے۔‘‘ ا سی طرح کی قانون سازی اس کمیٹی نے قانون وقف کے بارے میں بھی کی اور ا سے تقریباً قانون وراثت کے قریب پہنچا دیا۔ ا ستاذ محمد سلام مدکور حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ ثم فی سنۃ ۱۹۴۶م صدر القانون رقم ۴۸ معدلا لبعض أحکام الوقف وقد أخذ ھذا القانون فی الغالب أحکامہ من مختلف أقوال الفقھاء فی سائر المذاھب متوخیاً ما یحقق مصلحۃ الناس ولا یعرقل نظمھم الاقتصادیۃ ومن أھم قواعد ھذا القانون أنہ قرب أحکام الوقف من أحکام المیراث وعلی کل فقد ألغی الوقف الأھلی کلہ بالقانون ۱۸۰لسنۃ ۱۹۵۲م۔‘‘[2] ’’پھر ۱۹۴۶ء میں قانون ۴۸ صادر ہوا‘ جس کے ذریعے وقف کے بعض احکام کو تبدیل کیا گیا۔ اس قانون کے اکثر ضوابط کو تمام مذاہب کے مختلف فقہاء کی آراء سے اخذ کیا گیاتھااور اس کے ذریعے ایسے قوانین کی خواہش کی گئی ہے جن سے لوگوں کی مصالح پوری ہوں اور جو ملک کے اقتصادی نظام میں رکاوٹ پید انہ کریں ۔ اس قانون کے اہم ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ قانون وقف کو قانون میراث کے قریب کر دیاگیاہے اور ملکی وقف کے جمیع قوانین کو ۱۹۵۲ء میں قانون ۱۸۰ کے ذریعے ختم کر دیا گیا ہے۔‘‘
Flag Counter