Maktaba Wahhabi

166 - 214
ایک انفرادی مذہب میں ایک ہی مذہب کے علماء کے مختلف اقوال یا آراء ہوتی ہیں ۔ پس علمائے امت کو اس بڑے اور عمومی مذہب کی طر ف ر جوع کرناچاہیے اور اس کی بنیاد پر قضاء اور فتوی کے میدانوں میں وہ قانون سازی کرے ‘ جو موجودہ زمانے کے حالات اور ہر زمانے کے مصالح و مقتضیات کو حد درجے پورا کرنے والی ہو۔میرے نزدیک یہ ایک پختہ رائے ہے۔‘‘ اس فکر کے اثرات مصر کے قانون میں کافی نمایاں ہیں ۔ بعض اوقات تو ایسے قوانین بھی وضع کیے گئے جو مذاہب اربعہ کے مفتی بہ اقوال کے خلاف تھے۔ا ستاذ مصطفی زرقاء حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ ثم فی سنۃ ۱۹۲۹م خطت الحکومۃ المصریۃ خطوۃ وا سعۃ فی الأخذ من مختلف الاجتھادت مما وراء المذاھب الأربعۃ فأصدرت قانونا تحت رقم ۲۵ الغت فیہ تعلیق الطلاق بالشرط فی معظم حالاتہ کما اعتبرت تطلیق الثلاث أواثنتین بلفظ واحد طلقۃ واحدۃ عملا برأی ابن تیمیۃ ومستندہ الشرعی وذلک بإقرار مشیخۃ الأزھر للتخلص من مآ سی الطلاق المعلق وطلاق الثلاث مما یرتکبہ جھال الرجال وحماقھم فی ساعات النزاع أو الغضب فیخرجون عن حدود السنۃ والمقاصد الأ سا سیۃ فی الطلاق المشروع ثم یلتمسون المخرج منہ بشتی الحیل والو سائل الدنیئۃ بعد الوقوع مما یعرفہ أھل العلم۔‘‘[1] ’’پھر ۱۹۲۹ء میں حکومت مصر نے مختلف اجتہادات ‘ مثلاً ان سے بھی کہ جو مذاہب أربعہ میں شامل نہیں ہیں ‘ سے ا ستفادہ کرنے کے لیے ایک و سیع طریقہ کار طے کیا۔ پس حکومت مصر نے قانون ۲۵ صادر کیا‘ جس کے مطابق اکثر حالات میں معلق طلاق کو لغو قرار دیا۔ا سی طرح اس قانون میں ایک ہی لفظ کے ساتھ تین یا د وطلاقوں کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے اور ان کی شرعی دلیل پر عمل کرتے ہوئے ایک ہی شمار کیا گیا۔یہ قانون شیخ الأزہر کی رضامندی سے طے ہوئے ہیں تاکہ طلاق ثلاث اور معلق طلاق کی تکالیف سے نجات حاصل کی جائے جس کا ارتکاب عموماًجاہل اور نادان مرد حضرات جھگڑے اور شدید غصے کی حالت میں کرتے ہیں ۔ پس یہ لوگ سنت طلاق اور اس کے بنیادی مقاصد کی مشروع حدود کو پھلانگ جاتے ہیں اور بعد میں اس مصیبت سے نکلنے کے لیے مختلف قسم کے حیلے اور گھٹیا ذرائع تلاش کرتے ہیں ‘ جیسا کہ اہل علم ان و سائل و ذرائع سے آگاہ ہیں ۔ ‘‘ ا سی طرح۱۹۳۱ء میں بھی بعض ایسے جزوی قوانین جاری ہوئے جو مذہب حنفی کے مطابق نہ تھے۔ ا ستاذ محمد سلام مدکور حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وفی سنۃ ۱۹۳۱مصدر القانون ۷۸ بتنظیم المحاکم الشرعیۃ وقد احتوی علی بعض القوانین غیر مقید فیھا بمذھب معین۔‘‘[2] ’’۱۹۳۱ء میں شرعی عدالتوں کی تنظیم کے لیے قانون ۷۸ جاری ہوا۔ یہ قانون بھی بعض ایسی دفعات پر مشتمل تھا جو صرف ایک ہی فقہی مذہب سے نہیں لی گئی تھیں ۔ ‘‘ ۱۹۳۶ء ہی میں حکومت کی طرف سے علماء کی ایسی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جو متنوع مذاہب اسلامیہ کی روشنی میں مصر کے مختلف قوانین کی ترتیب و تدوین کا منصوبہ سنبھالے۔ ا ستاذ محمد سلام مدکور حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ ثم خطت مصر خطوۃ جدیدۃ نحو التلخص من التقید المذھبی ففی ۹ دی سمبر ۱۹۳۶م وافق مجلس الوزراء علی مذکرۃ لوزارۃ العدل اقترحت فیھا تشکیل لجنۃ بھا‘ تقوم بوضع مشروع قانون لمسائل الأحوال الشخصیۃ وما یتفرع عنھا والأوقاف والمواریث والوصیۃ وغیرھا ولا یتقید بمذھب دون آخر بل تأخذ من آراء الفقھاء وھو أکثر ملاء مۃ لمصالح الناس وللتطور الاجتماعی ولھا أن تبدأ بما تری أن الشکوی منہ أعم والحاجۃ إلیہ أمس۔‘‘[3]
Flag Counter