Maktaba Wahhabi

165 - 214
’’مع ھذا فکانت المعارضۃ فی إخراجہ قویۃ من بعض رجال الدین ومن تأثروا بھم لذا لم یخرج ھذا المشروع إلی التنفیذ ولم یصدر بہ القانون۔‘‘[1] ’’لیکن اس کے ساتھ ہی بعض علماء اور ان کے حلقہ فکر سے متعلق عوام الناس نے اس قانون کی اشاعت پر شدید رد عمل کا اظہار کیا‘ جس کی وجہ سے یہ پراجیکٹ (project) نافذ نہ ہو سکا اور نہ ہی اس کی بنیاد پر کوئی قانون جاری ہوا۔‘‘ علماء کی ان اجتماعی کوششوں کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ فقہ حنفی کے بعض ایسے مسائل کہ جن کی بنیاد پر قانون سازی میں عوام الناس کی مصالح کوبہت زیادہ ضرر پہنچنے کا اندیشہ تھا‘ میں حکومت نے دو سرے فقہی مذاہب کی آراء کو اختیار کرتے ہوئے کچھ جزوی قانونی ترامیم جاری کیں ۔أ ستاذ محمد سلام مدکور حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ وإنما اکتفی ولاۃ الأمر بمعالجۃ بعض الأمور التی وضح عدم مطابقۃ المذھب الحنفی فیھا لمصالح الناس فصدر القانون رقم ۲۵ سنۃ ۱۹۲۰م والقانون رقم ۵۶ سنۃ ۱۹۲۳م بوضع حد أدنی ل سن الزواج والقانون ۲۵ سنۃ ۱۹۲۹م وکل ھذہ القوانین نظمت بعض مسائل الأحوال الشخصیۃ المتعلقۃ بالزواج وبالنفقۃ والعدۃ والطلاق والن سب والمھر والحضانۃ والمفقود وما إلی ذلک و إن کان القانون الأول ۲۵ سنۃ ۱۹۲۰م أخذ من المذاھب الأربعۃ فإن القانونین الأخرین الصادرین فی سنۃ ۱۹۲۳م و سنۃ ۱۹۲۹م لم یتقیدا بالمذاھب الأربعۃ۔‘‘[2] ’’ہاں حکمرانوں نے اس کمیٹی کے وضع کرہ قانون کی روشنی میں بعض ان قانونی پیچیدگیوں کی اصلاح کر لی‘ جن میں فقہ حنفی کی‘ مصلحت عامہ سے عدم مطابقت بہت واضح تھی۔ پس ۱۹۰۲ء میں قانون نمبر۲۵‘ ۱۹۲۳ء میں قانون نمبر ۵۶ جاری ہوا جس میں شادی کی کم سے کم عمر کو متعین کیا گیا تھا۔ا سی طرح ۱۹۲۹ء میں بھی قانون نمبر ۲۵ جاری ہوا ۔ ان تمام قوانین کی وجہ سے عائلی زندگی مثلا نکاح‘ نفقہ‘ عدت‘ طلاق‘ نسب‘مہر‘ حضانت اور مفقود الخبر وغیرہ سے متعلق بعض پیچیدہ اور الجھے ہوئے مسائل حل ہو گئے۔۱۹۲۰ء میں صادر ہونے والا قانون اگرچہ مذاہب اربعہ سے لیا گیاتھا لیکن ۱۹۲۳ء اور ۱۹۲۹ء کے قانون میں تو مذاہب اربعہ کی قید بھی نہیں تھی(بلکہ وہ بعض تابعین رحمہم اللہ اور دو سرے فقہی مذاہب کی آراء پر مبنی تھا)۔‘‘ مصری فقہاء میں بالخصوص اور اب تو عالم اسلام میں بالعموم یہ فکر بہت تیزی سے پھیل رہی ہے کہ تمام مذاہب اسلامیہ کو ایک ہی مذہب شمار کرتے ہوئے ان سے قانون سازی اور جدیدفتاوی میں ا ستفادہ کیا جائے۔یہ ایک بہت ہی عمد ہ رائے اور امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے أز بس ضروری قدم ہے۔معروف شامی فقیہ ا ستاذ مصطفی الزرقاء حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ویری بعض المفکرین من علماء العصر أن مجموعۃ المذاھب الاجتھادیۃ یجب أن تعتبر کمذھب واحد کبیر فی الشریعۃ وکل مذھب فردی منھا کالمذھب الحنفی والمالکی والشافعی والحنبلی وغیرھا یعتبر فی ھذا المذھب العام کالآراء والأقوال المختلفۃ فی المذھب الفردی الواحد فیرجع علماء الأمۃ ویختارون منھا لل تقنین فی میدان القضاء والفتیا ما ھو أوفی بالحاجۃ الزمنیۃ ومقتضیات المصلحۃ فی کل عصر وھذا رأی سدید۔‘‘[3] ’’عصر حاضرکے بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ تمام فقہی مذاہب کے مجموعے کو شریعت اسلامیہ میں ایک بہت بڑے فقہی مذہب کے طور پرلیناچاہیے۔ان مذاہب میں سے ہر ایک مثلاًحنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی وغیرہ کو اس ایک بڑے عمومی مذہب میں ایسا ہی سمجھنا چاہیے جیسا کہ
Flag Counter