Maktaba Wahhabi

164 - 214
فی حل مشکلات الأوقاف‘رکھا۔یہ قانون ۶۴۶ دفعات پر مشتمل تھا اور ۱۸۹۳ء میں طبع ہوا۔‘‘ ان کی تیسری کتاب’قانون الأحوال الشخصیۃ‘عائلی قوانین سے متعلق تھی۔ ڈاکٹر صبحی محمصانی لکھتے ہیں : ’’ اس کے علاوہ حکومت مصر نے حنفی مذہب کے مطابق شخصی حالات کے شرعی احکام(یعنی عائلی قوانین)کی تدوین کاکام محمد قدری پاشا مرحوم کے سپرد کیا‘ چناچہ انہوں نے ۶۴۷ دفعات کی ایک کتاب مرتب کی جس میں نکاح‘ طلاق‘ اولاد‘ نابالغ کی سرپر ستی‘ حجر(روکنا)‘ ہبہ‘ وصیت اور میراث کے مسائل درج کیے اور وہ مصر اور دو سرے اسلامی ملکوں کی شرعی عدالتوں میں م ستند قرار پائی۔‘‘[1] ۱۹۲۰ء تک مصر کی عدالتوں میں امام أبوحنیفہ رحمہ اللہ کے راجح ترین قول کے مطابق فیصلے ہوتے تھے۔مفتی سید عبد القیوم جالندھری لکھتے ہیں : ’’قانون ترتیب محاکم شرعیہ ۱۹۱۰ء کی دفعہ ۲۸۰ کے مطابق امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے راجح ترین اقوال پر عمل کیا جاتا تھا لیکن قانون ۲۵(۱۹۲۰ء)میں قاضی کو اختیار دیا گیا کہ وہ نفقہ عدت مفقود وغیرہ معین مسائل میں امام مالک رحمہ اللہ اور اما م شافعی رحمہ اللہ کے اقوال پر بھی عمل کرنے کا مجاز ہے۔‘‘[2] دو سری طرف تحریک سلفیہ شیخ جمال الدین افغانی رحمہ اللہ(متوفی ۱۸۹۷ء)اور شیخ مفتی محمد عبدہ رحمہ اللہ(متوفی ۱۹۰۵ء)کی وفات سے رکی نہیں بلکہ اس تحریک کو شیخ رشید رضا رحمہ اللہ (۱۸۶۵ تا ۱۹۴۵ء)اور جامعہ أزہر کے شیخ مصطفی المراغی رحمہ اللہ(۱۸۸۱ تا ۱۹۴۵ء)کی صورت میں دو نئے امام مل گئے۔ان حضرات نے مصری قانون میں تمام مذاہب اسلامیہ سے ا ستفادہ کی فکر کو جاری رکھا جس کی وجہ سے ا سی دوران حکومت مصر نے مذاہب أربعہ کے کبار علماء کی ایک کمیٹی بنادی۔أ ستاذ محمد سلام مدکور لکھتے ہیں : ’’عملت الحکومۃ علی تألیف لجنۃ من کبار الفقھاء والمشرعین لوضع قوانین تؤخذ من الفقہ الاسلامی من غیر تقید بمذھب معین مع مراعاۃ روح العصر فألفت لجنۃ من کبار علماء المذاھب الأربعۃ۔‘‘[3] ’’حکومت مصر نے کبار فقہاء اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینے کا پروگرام شروع کیا تا کہ وہ کسی معین مذہب کی تقلید کی بجائے تمام مذاہب اسلامیہ سے ا ستفادہ کرتے ہوئے زمانے کے حالات و روح کے مطابق قوانین وضع کرے۔ پس حکومت نے مذاہب أربعہ کے کبار علماء پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔‘‘ اس کمیٹی کی کوششوں سے کئی ایک قانونی م سودات تیار ہوئے ۔أ ستاذمحمد سلام مدکور حفظہ اللہ ان م سودات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ فوضعت اللجنۃ مشروع قانون للزواج والطلاق وما یتعلق بھما طبع سنۃ ۱۹۱۶م ثم أعید طبعہ بعد تنقیح فیہ سنۃ ۱۹۱۷م۔‘‘[4] ’’ پس اس کمیٹی نے نکاح ‘ طلاق اور ان سے متعلقات پر مبنی اپنا پراجیکٹ مکمل کر لیا جو ۱۹۱۶ء میں طبع ہوا اور ۱۹۱۷ء میں اس کو دوبار تنقیح کے بعد شائع کیاگیا۔‘‘ لیکن بعض حنفی مقلدعلماء ‘کہ جن کا عوام الناس میں خاصا اثر تھا‘نے صرف حنفی مذہب پر مبنی قانون سازی ہی کو تقنین کا صحیح منہج قرار دیا اور قانون سازی کی ان اجتماعی کوششوں کا سختی سے رد کیا۔ پس حکومت اس کمیٹی کی سفارشات پر کوئی قانون سازی نہ کر سکی۔أ ستاذ محمد سلام مدکور حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
Flag Counter