Maktaba Wahhabi

163 - 214
تقنین کی ان کوششوں میں فقہ حنفی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے عوام الناس میں شدید رد عمل سامنے آیاکیونکہ اس قانون سازی سے پہلے مصر میں سلطنت عثمانیہ کا مجلہ أحکام عدلیہ نافذ تھا۔ایک طرف تو ا سماعیل پاشا نے اس مجلے کو کالعدم قرار دیاجبکہ دو سری طرف نئی قانون سازی کے لیے بنیادبھی فقہ حنفی کی بجائے فقہ مالکی کو بنایا گیاتھا۔ اس احتجاج کے نتیجے میں حکومت کی ایماء پر معروف مصری فقیہ جناب محمد قدری پاشا رحمہ اللہ نے ’مرشد الحیران إلی معرفۃ أحوال الإنسان‘لکھی جو فقہ حنفی کے مذہب پر تھی۔مفتی عبد القیوم جالندھری لکھتے ہیں : ’’ا سماعیل پاشا نے تحریک مذکور(یعنی تحریک سلفیہ) سے متاثر ہو کردولت عثمانیہ کے مجلہ أحکام عدلیہ کو جو فقہ حنفی کی ایک کتاب تھی ترک کر کے شیخ مناری کو یہ خدمت سپر دکی کہ وہ فران سی سی قانون کو امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب یا فقہ سے تطبیق دیں تاکہ علمائے کرام کی شکایت رفع ہو جائے۔عالم موصوف نے موضوع مذکور پر بڑی ضخیم کتاب تصنیف کی اور مصر کا مدنی قانون نپولین کے فران سی سی بدنی قانون سے نقل کیا اس پر بعض اصحاب نے احتجاج کیا۔ اس کی ضرورت نہ تھی۔‘‘[1] محمد قدری پاشا رحمہ اللہ نے مصری اسلامی قانون کی تدوین میں اہم خدمات سرانجام دی ہیں ۔ان کی تین کتابوں کو بطور قانون نافذ کیا گیا۔شیخ عبد الرحمن عبد العزیز القا سم لکھتے ہیں : ’’ومن کتبہ ۔۔۔مرشد الحیران إلی معرفۃ أحوال الانسان وقد ا ستمد أحکامہ من مذہب أبی حنیفۃ واشتمل علی ۱۰۴۵ مادۃ تناول فیھا أحکام الأموال والحقوق المتعلقۃ بھا وأ سباب الملک والشفعۃ و أحکامھا والمداینات والأمانات والضمانات والعقود عموماً و تفصیلا ًکعقد البیع والإجارۃ والمزارعۃ والمساقاۃ والشرکۃ والعاریۃ والقرض والودیعۃ والکفالۃ والحوالۃ والرھن والصلح وقد أشار فی ھوامشہ إلی المصدر الذی ا ستقی منہ الحکم فی کل مادۃ فیکون بو سع الباحث أو المحقق أو الدار س أو القاضی أن یتتبع تلک المصادر للوقوف علی صحۃ تلک الأحکام ومعرفۃ مکانتھا ومدی قوۃ حجتھا إذا لزم الأمر وقد قامت الحکومۃ المصریۃ إذ ذاک بطبع ذلک الکتاب سنۃ ۱۸۹۰۔‘‘[2] ’’ان کی کتابوں میں سے۔۔۔ایک کتاب ’مرشد الحیران إلی معرفۃ أحوال الإنسان‘ہے ۔انہوں نے اس کتاب میں فقہ حنفی سے ا ستفادہ کیا ہے۔یہ کتاب ۱۰۴۵ دفعات پر مشتمل ہے کہ جس میں أموال اور ان سے متعلقہ حقوق‘ ملکیت کے ا سباب‘ شفعہ اور اس کے احکام‘ قرضوں کے احکام‘ امانت‘ ضمانت اور معاہدات کے احکامات عموماً اور عقد بیع‘ اجارۃ‘ مزارعت‘ مساقات‘ شراکت‘ ادھار‘ قرض‘ امانت‘ کفالت‘ حوالہ‘ رہن اور صلح کے بارے میں تفصیلاً احکامات ہیں ۔ اس کتاب میں ہر مسئلے کے بیان میں انہوں نے حواشی میں اس کے اصل مصدر کابھی تذکرہ کر دیاہے کہ جس سے انہوں نے وہ مسئلہ لیاتھاتاکہ جب بھی کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو تو ایک مدر س‘ محقق‘ ا ستاذ یا جج کے لیے ان احکامات کی صحت ‘ ان کا مصدر اور ان کی قوت ا ستدلال کو ان کے اصلی مصادر سے معلوم کرنا آ سان ہو۔حکومت مصر نے ۱۸۹۰ء میں اس کتاب کو شائع کیا۔‘‘ جناب قدری پاشا رحمہ اللہ کی دو سری کتاب قانون وقف کے بارے میں تھی۔شیخ عبد الرحمن عبد العزیز القا سم لکھتے ہیں : ’’وقد وضع قانوناً آخر فی الوقف وأحکامہ سماہ کتاب العدل والانصاف فی حل مشکلات الأوقاف ویتکون من ۶۴۶ مادۃ وطبع سنۃ ۱۸۹۳۔‘‘[3] ’’انہوں نے وقف اور اس کے احکام کے بارے میں ایک اور قانون بھی وضع کیا جس کا نام انہوں نے ’کتاب العدل والانصاف
Flag Counter