اڑھائی سو سالہ حکومت ختم کر کے مصر پر قبضہ کر لیا۔دولت عثمانیہ کے دور میں مصر میں حنفی فقہ کے مطابق فیصلے ہوتے رہے۔
ا سماعیل بن ابراہیم پاشا(۱۸۳۰تا ۱۸۹۵ء)نے ۱۸۶۳ء میں مصر کی حکومت سنبھالی اور سلطنت عثمانیہ کے حکمران سلطان عبد العزیز(۱۸۶۱ تا ۱۸۷۶ء)کی طرف سے ا سے ’خدیوی‘ کا خطاب دیا گیا۔۱۸۷۴ء میں مصر کے حاکم ا سماعیل پاشا کی طرف سے ایک فرمان جاری ہوا جس کے مطابق مصر عدالتی اور انتظامی لحاظ سے پوری طرح آزادہو گیا۔مفتی سید عبد القیوم جالندھری لکھتے ہیں :
’’ا سمعیل پاشا کے فرمان ۱۲ جمادی الأولی ۱۲۹۱ھ(۱۸۸۴ء)کی بناء پر مصر کو ا ستقلال حاصل ہوا اور وہ آزاد ہو گیا۔‘‘[1]
مصر میں ا سی عرصے میں ایک اصلاحی تحریک بھی جاری تھی جو ’مذہب السلف الصالح‘ کی تحریک کہلاتی ہے۔ اس تحریک نے بھی بعد ازاں مصر میں قانون سازی کے عمل پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ڈاکٹر صبحی محمصانی لکھتے ہیں :
’’مصر میں بھی جدید اصلاحی تحریک جاری تھی جو ’تحریک سلفیہ‘ یا ’مذہب السلف الصالح‘کی تحریک کہلاتی ہے۔یہ تحریک سید جمال الدین افغانی رحمہ اللہ(۱۸۳۹تا ۱۸۹۷ء)اوران کے بعد ان کے شاگرد ا ستاذ امام شیخ محمد عبدہ(۱۸۴۹ تا ۱۹۰۵ء)مفتی مصر نے جاری کی۔۔۔مذہب سلفیہ کا نصب العین یہ ہے کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے اور جمود اور خرافات اور مخالف دین بدعتوں اور ہر اندھی تقلید کے خلاف جہاد کیا جائے۔۔۔انہیں اصول کی بناء پرمذہب سلفیہ کے لوگ اسلام کے مختلف مذاہب کا اتحاد چاہتے ہیں ۔ان کا خیال ہے کہ کوئی اسلامی فرقہ ایک مذہب کے مقلدین کی تقلید کا بار برداشت نہیں کر سکتا اور نہ وہ اپنے امور خانگی اور مالی معاملات کی فلاح و بہبود کو ہر حالت میں صرف ایک مذہب کی کتابوں سے وابستہ کرنا پسند کرے گا۔[2]
مصر کے حکمران ا سماعیل پاشا نے ا سی تحریک سے متاثر ہو کر ا ستاذ مونوری کو یہ کام سونپا کہ وہ فران سی سی قانون کو مذہب امام مالک رحمہ اللہ کے مطابق ڈھالیں ۔شیخ عبد الرحمن عبد العزیز القا سم لکھتے ہیں :
’’فقد کلفت الحکومۃ المصریۃ سنۃ۱۸۷۵ الأ ستاذ مونوری وھو محام فرن سی وکان مقیماً فی مصر بوضع تقنین ات للمحاکم المختلطۃ علی غرار التقنین ات الفرن سیۃ فوضع بناء علی ذلک التقنین المدنی و تقنین التجارۃ البریۃ و تقنین التجارۃ البحریۃ و تقنین المرافعات و تقنین العقوبات و تقنین تحقیق الجنایات۔‘‘[3]
’’۱۸۷۵ء میں مصری حکومت نے ایک فران سی سی وکیل ا ستاذ مونوری ‘ جو مصر میں مقیم تھے‘ کو مختلط عدالتوں کے لیے فران سی سی قانون سازی کے طرز پر قوانین وضع کرنے کا کام سونپا۔ پس ا ستاذ مونوری نے فران سی سی قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے مصر کے مدنی قوانین(civil laws)‘ بری و بحری تجارت کے قوانین‘ دعوی دائر کرنے کے قوانین ‘جرائم کی سزا اور ان کی تحقیق کے قوانین وضع کیے۔‘‘
یہ قانون ’مخلوط قانون مدنی‘ کے نام سے ۱۸۷۵ء میں جاری ہوا۔ ڈاکٹر صبحی محمصانی لکھتے ہیں :
’’ اس کے بعد ۱۸۷۵ء میں غیر ملکیوں کے مقدموں پر غور کرنے کے لیے مخلوط عدالتیں قائم ہوئیں اور ان کے لیے مخلوط قانون مدنی ۱۸۷۵ء میں جاری ہوا۔‘‘[4]
۱۸۸۳ء میں ایک اطالوی ا ستاذ موروندو نے حکومت کے کہنے پر’ملکی قانون مدنی‘ وضع کیا ۔شیخ عبد الرحمن عبد العزیز القا سم لکھتے ہیں :
’’کما وضع الأ ستاذ الإیطالی موروند التقنین المدنی الأھلی سنۃ ۱۸۸۳۔‘‘[5]
’’جیسا کہ ایک اطالوی ا ستاذ موروند نے(حکومت کی ایماء پر)۱۸۸۳ء میں ملکی مدنی قانون وضع کیا۔‘‘
|