Maktaba Wahhabi

82 - 214
’’اتفاق أغلب المجتھدین من أمۃ محمد صلي اللّٰه عليه وسلم فی عصر من العصور علی حکم شرعی فی مسألۃ۔‘‘[1] ’’امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر مجتہدین کا کسی زمانے میں کسی مسئلے کے شرعی حکم پر اتفاق کر لینا ‘اجتماعی اجتہاد ہے۔‘‘ ڈاکٹر خلیل العید کی اس تعریف پر بھی وہ تمام اعتراضات وارد ہوتے ہیں جو ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ کی تعریف پر ہیں ۔پہلی تعریف پر وارد ہونے والے اعتراضات کے علاوہ ایک اور اعتراض جو مذکورہ بالا تعریف پر وارد ہو سکتاہے‘ وہ یہ ہے کہ کسی مسئلے پر فقہاء کی اکثریت کا اتفاق تو اس طرح بھی حاصل ہو جاتا ہے کہ کسی ایک مجتہد نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہو اور ا سی زمانے میں کچھ اور مجتہدین بھی اس کی رائے سے متفق ہو گئے جبکہ اس طرح کے اتفاقی اجتماع کو کوئی بھی اجتماعی اجتہاد نہیں کہتا ہے۔اگر امام مالک رحمہ اللہ نے کسی مسئلے میں کسی رائے کا اظہار کیا اور امام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا ان سے اتفاق ہو گیا‘ جیسا کہ اکثر و بیشتر مسائل میں ہوتا ہے کہ أئمہ ثلاثہ کا موقف ایک ہی ہے جبکہ امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ دو سری طرف ہیں ‘تو کیا یہ اجتماعی اجتہاد ہو گا؟حالانکہ اس کو اجتماعی اجتہاد کوئی بھی نہیں کہتا ہے۔ڈاکٹر أحمد رئی سونی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وبغض النظر عن الاختلاف فی الصیغ التعریفیۃ المفضلۃ عند کل واحد‘ فلا أحد یخالف فی أن(الاجتھاد الجماعی): ھو الذی ینبثق مضمونہ و یصدر عن جماعۃ من العلماء‘ بعد التشاور والتحاور فی المسألۃ المجتھد فیھا۔فدخول عنصری( الجماعۃ والتحاور )فی الجھد الاجتھادی‘ وفی الموافقۃ علی نتیجتہ‘ ھو الذی یعطی الاجتھاد صفۃ(الجماعی)۔فلو اتفق عدد من العلماء علی اجتھاد معین‘ دون تلاق ولا تحاور بینھم‘ فلا یکون اجتھادھم واتفاقھم اجتھادا جماعیاً وکذلک إذا تلاقوا وتحاوروا فی المسألۃ‘ لکنھم اختلفوا وعبر کل منھم عن اجتھادہ و وجھۃ نظرہ۔نعم إذا لم یتفقوا جمیعاً‘ وصدر الاجتھاد أو الفتوی با سم فریق منھم فإنہ یکون اجتھادا جماعیاً لا سیما إذا کان المتفقون ھم الأکثریۃ۔‘‘[2] ’’اگر اجتماعی اجتہاد کی مختلف تعریفوں میں موجود اس ختلاف سے صرف نظر کریں جوہر تعریف کے واضع کے نزدیک اہم ہے‘ تو اس بات سے تو کسی عالم دین کو اختلاف نہیں ہو گا کہ اجتماعی اجتہاد سے مراد وہ اجتہاد ہے جو کسی مجتہد فیہ مسئلے میں باہمی مشاورت و مکالمے کے بعد علماء کی ایک جماعت سے صادر ہواور پانی کی طرح از خود جاری ہو جائے(یعنی پہلے سے طے شدہ نتائج یا اتحاد و اتفاق کے حصول کے لیے نہ ہو)۔ پس اجتہادی کوشش میں جب ایک جماعت اور دو سرا باہمی مشاورت کا عنصر شامل ہو جائے اور بعد ازاں اس پر علماء کی موافقت بھی حاصل ہو جائے تو اس کو اجتماعی اجتہا دکہیں گے۔ پس اگر علماء کی ایک جماعت کا کسی معین اجتہاد پر باہمی ملاقات و مشاورت کے بغیر اتفاق ہو گیاتو ان کے اس اجتہاد یا اتفاق کو اجتماعی اجتہاد کا نام نہ دیا جائے گا۔ا سی طرح اگر علماء نے باہم مل بیٹھ کر کسی مسئلے میں مشاورت کی اور ان کا آ پس میں اختلاف ہو گیا۔ پس ہر ایک نے اپنے اجتہاد اور نقطہ نظر کو واضح کیااور کسی ایک رائے پر ان سب کا اتفاق نہ ہو سکا۔اب اگر علماء کی اس مجلس میں ایک گروہ اپنے نام سے کوئی اتفاقی فتوی جاری کرتا ہے تو ا سے بھی اجتماعی اجتہاد کہیں گے‘خاص طور پر جبکہ اس مجلس کی اکثریت کسی رائے پر متفق ہو۔‘‘ ڈاکٹر أحمد رئی سونی حفظہ اللہ کا کہنا یہ ہے کہ اگر علماء کی ایک مجلس میں کسی مسئلے کے بارے کئی ایک آراء سامنے آئیں اور اس مجلس کے علماء کی اکثریت یا ایک فریق‘ کسی ایک رائے پر اتفاق کرتے ہوئے اس کے مطابق فتوی جاری کر دے تو ا سے بھی اجتماعی اجتہاد کہیں گے لیکن اگر مجلس کے تمام اراکین میں ہی اختلاف ہو جائے اور دو سے زائد علماء کسی رائے پر متفق نہ ہوں تو پھر ہر ایک کا فتوی انفرادی اجتہاد ہو گا نہ کہ اجتماعی۔ ہمیں جو بات محسوس ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ اجتماعی اجتہاد کے بنیادی عناصر جماعت اور باہمی مشاورت ہے ۔یعنی اگر علماء کی ایک جماعت کسی مسئلے کا شرعی حل پیش کرنے کے لیے باہمی مشاورت کرے تو اس عمل کو اجتماعی اجتہاد کہیں گے۔جہاں تک ان سب یا ان کی اکثریت کے
Flag Counter