Maktaba Wahhabi

136 - 214
حجیتہ وإلزامہ فی الفتوی و التشریع۔وإذا اختلفوا کان رأی الأکثریۃ ھو الأرجح‘ مالم یوجد مرجح آخر لہ اعتبارہ شرعاً۔علی أن ھذا الاجتھاد الجماعی لا یقضی علی اجتھاد الأفراد‘ ولا یغنی عنہ‘ ذلک أن الذی ینیر الطریق للاجتھاد الجماعی ھو البحوث الأصلیۃ المخدومۃ التی یقدمھا أفراد المجتھدین‘ لتتناقش مناقشۃ جماعیۃ‘طویصدر فیھا بعد البحث والحوار قرار المجمع المذکور بالإجماع أو الأغلبیۃ۔۔۔و سیظل حق الأفراد فی الاجتھاد قائماً علی کل حال‘ بل إن عملیۃ الاجتھاد فی ذاتھا عملیۃ فردیۃ فی الأ سا س‘ وإنما الاجتھاد الجماعی ھو التشاور فیما وصل إلیہ أفراد المجتھدین کما رأینا۔‘‘[1] ’’اور یہ مطلوب اجتماعی اجتہاد ایک بین الأقوامی علمی اسلامی اکیڈمی کی صورت میں ہونا چاہیے۔ یہ مجلس علاقائی‘ مذہبی یا جن سی بنیادوں کی بجائے عالم اسلام کے اعلی صلاحیتوں کے مالک فقہاء پر مشتمل ہو۔ کوئی شخص اس اکیڈمی کی رکنیت کا امیدوار اپنی فقاہت اور تقوی کی بنیاد پر ہو سکتا ہے نہ کہ فلاں حکومت یا اس نظام سے تعلق یا فلاں حکمران اور اس نگران سے رشتہ داری۔ یہ ایک لازمی أمر ہے کہ اس اکیڈمی کو مکمل آزادی حاصل ہو تا کہ یہ مجلس اپنی رائے صراحت سے بیان کرے اوربغیر کسی حکومتی دباؤ یا رعب یا معاشرے کے شدید دباؤکے اپنی قراردادیں جرات سے پاس کرے۔اور اگر اس اکیڈمی کے علماء کا اجتہادی مسائل میں سے کسی ایک مسئلے کے بارے میں کسی رائے پر اتفاق ہوجائے تو اس کو عصر حاضر کے مجتہدین کا اجماع کہتے ہیں ۔ یہ اجماع فتوی اور قانون سازی میں حجت ہو گا۔ اگر ان علماء کا آ پس میں اختلاف ہو جائے تو جمہور کی رائے راجح ہو گی جب تک راجح قرار دینے کا کوئی دو سرا شرعی سبب موجود نہ ہو۔ا سی طرح یہ اجتماعی اجتہاد‘ انفرادی اجتہاد پر فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتا اور نہ ہی اس سے بے نیاز کر سکتا ہے کیونکہ اجتماعی اجتہاد کا ر ستہ جن بنیادی تحقیقات کی روشنی میں منور ہوتا ہے ‘ وہ مجتہد افراد کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں تا کہ ان پر اجتماعی مناقشہ ہو سکے۔ انہی انفرادی تحقیقات پر بحث و مکالمے کے بعد اکیڈمی کی اجماعی یا اکثری قرارداد پاس ہوتی ہے۔۔۔ اس صورت میں افراد کے پاس اجتہاد کا حق باقی رہے گا بلکہ اجتہادی عمل اپنی ذات میں بنیادی طور پر ایک انفرادی عمل ہے۔ ہماری رائے کے مطابق مجتہدین افراد کی تحقیقات پر باہمی مشاورت کا نام اجتماعی اجتہاد ہے۔‘‘ اجتماعی اجتہاد کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ اگر اس میں جمہور کا اتفاق ہو جائے تو اس اتفاق کو اجماع کی سی حجیت حاصل ہوتی ہے۔ ڈاکٹر شعبان محمد ا سماعیل حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’وغالباً ما یکون فی الم ستجدات التی لیس فیھا نص من کتاب أو سنۃ‘ فیہ مجال للرأی من المصالح الدنیویۃ التی تختلف باختلاف الزمان أو المکان‘ کالإجماع علی إمامۃ شخص بعینہ‘ أو علی إعلان حرب علی عدو‘ وھذا فی الواقع اجتھاد اجماعی‘ لہ من الحجیۃ ما للإجماع الکامل‘ وإلی ذلک ذھب کثیر من العلماء الأجلاء مثل: ابن جریر الطبری‘ وأبی بکر الرازی‘ وأبی الحسین الخیاط‘ وبعض المعتزلۃ‘ والإمام أحمد بن حنبل فی إحدی الروایتین عنہ۔‘‘[2] ’’غالباً وہ جدید مسائل کہ جن میں قرآن و سنت میں کوئی صراحت نہیں ہے ‘ ان میں ایسی دنیاوی مصالح ‘ جو زمان و مکان کے اعتبار سے تبدیل ہوتی رہتی ہیں ‘کی وجہ سے رائے دہی کا امکان ہے جیسا کہ کسی شخص کی امامت پر اجماع ہے یا دشمن سے اعلان جنگ پر اتفاق ہے۔ یہ فی الواقع اجتماعی اجتہاد ہی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور اس اجتماعی اجتہاد کو اجما ع جیسی کامل حجیت حاصل ہوتی ہے۔ جلیل القدر علماء کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے جیسا کہ امام ابن جریر طبری‘ أبو بکررازی‘ أبو الحسن خیاط‘ معتزلہ کی ایک جماعت اور ایک روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے۔‘‘
Flag Counter