کی رائے کے علاوہ رائے رکھتا ہو مثلاً کوئی مالکی امام کسی شافعی یا حنفی کو کسی جگہ ولایت دے۔لیکن اگر امام نے قاضی پریہ شرط عائد کر دی کہ وہ کسی معین مذہب کے مطابق یا امام کی اجتہادی رائے کے مطابق فیصلہ کرے گا تو یہ شرط باطل ہے لیکن عقد صحیح ہو گا۔ا سی طرح کا قول طرطوشی رحمہ اللہ سے’الجواہر‘ میں بھی منقول ہے۔جبکہ ان کے علاوہ مالکی علماء کا کہنا یہ ہے یہ عقد بھی ناجائز ہوگا اور یہ عقد قابل ف سخ اور مردود ہے۔یہ قول اس صورت میں ہے جبکہ قاضی مجتہد ہو۔امام مازری رحمہ اللہ (متوفی ۵۳۶ھ)نے بھی ا سی طرح کا مسئلہ بیان کیا ہے۔‘‘
قاضی مدینہ برہان الدین ابراہیم بن علی بن فرحون المعروف بابن فرحون رحمہ اللہ متوفی ۷۹۹ھ فرماتے ہیں ۔
’’ قال الشیخ أبوبکر الطرطوشی أخبرنا القاضی أبو الولید الباجی أن الولاۃ کانوا بقرطبۃ إذا ولوا رجلاً القضاء شرطوا علیہ فی سجلہ ألا یخرج عن قول ابن القا سم ما وجدہ۔قال الشیخ أبوبکر: وھذا جھل عظیم منھم یرید أن الحق لیس فی شیء معین و إنما قال الشیخ أبوبکر ھذا لوجود المجتھدین و أھل النظر فی قضاۃ ذلک الزمان فتکلم علی أھل زمانہ و کان معاصرا للامام أبی عمر بن عبد البروا لقاضی أبی الولید الباجی والقاضی أبی الولید بن رشد والقاضی أبی بکر بن العربی والقاضی أبی الفضل عیاض والقاضی أبی محمد بن عطیۃ صاحب التفسیر وغیر ھؤلاء من نظرائھم۔‘‘[1]
’’شیخ أبوبکر طرطوشی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ہمیں أبو ولید باجی رحمہ اللہ (متوفی ۴۷۴ھ)نے یہ خبر دی ہے کہ قرطبہ کے حکمران جب کسی کو قاضی مقرر کرتے تو اپنے سرکاری ر جسٹر میں یہ شرط مقرر کرتے تھے کہ جب وہ(امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد)ابن القا سم رحمہ اللہ (متوفی ۱۹۱ھ)کا قول کسی مسئلے میں پا لے تو اس سے تجاوز نہ کرے۔شیخ أبوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ ان حکمرانوں کی جہالت عظمی تھی ۔شیخ یہ کہنا چاہتے تھے کہ حق کسی ایک معین قول میں نہیں ہوتا۔شیخ أبوبکر رحمہ اللہ نے یہ قول اس لیے کہا ہے کیونکہ اس زمانے میں مجتہدین اور اہل نظر قاضی موجود تھے پس انہوں نے یہ بات اپنے زمانے کے اعتبار سے کی ہے۔ان کے معاصر علماء میں ابن عبد البر‘ قاضی أبو ولید باجی‘قاضی ابن رشد‘قاضی ابن العربی‘قاضی عیاض‘ قاضی ابن عطیہ رحمہم اللہ وغیرہ جی سے جلیل القدر فقہائے مجتہدین موجود تھے۔(اور انہوں نے یہ بات مذکورہ جلیل القدرعلماء کے حوالے سے کی تھی کہ ایسے علماء کو کسی حکمران کی طرف سے کسی معین قول کا پابند بنانا جہل عظیم ہے)۔‘‘
اگر تو حکمران یاقاضی کسی امام کا مقلد ہو توپھر اس صورت میں حکمران کے لیے جائز ہے کہ وہ قاضی کو اپنے امام کے مذہب کے مطابق فیصلوں کا پابند بنائے۔محمد بن عبد الرحمن الحطاب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ قال: وإن کان الامام مقلدا وکان متعباً لمذھب مالک أو اضطر إلی ولایۃ قاض مقلد لم یحرم علی الإمام أن یأمرہ أن یقضی بین الناس بمذھب مالک ویأمرہ أن لا یتعدی فی قضائہ مذھب مالک لما یراہ من المصلحۃ فی أن یقضی بین الناس بما علیہ أھل الاقلیم والبلد الذی ھذا القاضی منہ ولی علیھم وقد ولی سحنون رجلاً سمع بعض کلام أھل العراق وأمرہ ألا یتعدی الحکم بمذھب أھل المدینۃ۔‘‘[2]
’’امام مازری رحمہ اللہ نے کہا: اگر امام مقلد ہو مثلاًامام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کا متبع ہویا امام کسی ایسے شخص کو قاضی بنانے پر مجبور ہو جو مقلد ہو تو اس صورت میں امام پر یہ حرام نہیں ہے کہ وہ اس قاضی کو لوگوں کے مابین امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کے مطابق فیصلے کرنے کا پابند بنائے اور اس کو یہ حکم جاری کرے کہ وہ اپنے فیصلوں میں امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب سے تجاوز نہ کرے کیونکہ امام اس میں مصلحت دیکھتا ہے کہ اس علاقے اور شہرکے لوگ کہ جن پر یہ قاضی مقرر کیا گیاہے‘ کے مابین اس مذہب کے مطابق فیصلے ہوں کہ جس مذہب پر وہ عمل پیر اہوں ۔(مالکی فقیہ و قاضی) سحنون رحمہ اللہ (متوفی ۲۴۰ھ)نے ایک ایسے مالکی کو ولایت دی تھی جس نے بعض اہل عراق سے کچھ مسائل
|