Maktaba Wahhabi

91 - 214
’’حدثنا أبی ثنا ابن أبی عمیر ثنا سفیان عن ابن شبرمۃ عن الحسن فی قولہ﴿ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ﴾ قال: قد علم أنہ لیس بہ إلیھم حاجۃ وربما قال: لیس لہ إلیھم حاجۃ ولکن أراد أن یستن بہ من بعدہ۔‘‘[1] ’’ہمیں ہمارے والد صاحب نے بیان کیاہے‘ اور انہوں نے کہا کہ انہیں ابن أبی عمیر نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ انہیں سفیان نے ابن شبرمہ سے‘ اور انہوں نے حسن بصری رحمہ اللہ سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے قول’’اور ان سے مختلف امور میں مشاورت فرمائیں ‘‘ کے بارے میں کہا ہے: یہ بات معلوم ہے کہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورے کی حاجت وضرورت نہ تھی‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے ما بعد والوں کے لیے اس بارے میں کوئی سنت جاری کریں ۔‘‘ امام ابن جریرطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ قال أبو جعفر: وأولی الأقوال بالصواب فی ذلک أن یقال: إن اللّٰہ عز وجل أمر نبیہ صلي اللّٰه عليه وسلم بمشاورۃ أصحابہ فیما حزبہ من أمر عدوہ ومکاید حربہ تألفاً منہ بذلک من لم تکن بصیرتہ بالاسلام البصیرۃ التی یؤمن علیہ معھا فتنۃ الشیطان وتعریفاً منہ أمتہ مأتی الأمور التی تحزبھم من بعدہ ومطلبھا لیقتدوا بہ فی ذلک عند النوازل التی تنزل بھم فیتشاوروا فیما بینھم کما کانوا یرونہ فی حیاتہ صلي اللّٰه عليه وسلم یفعل۔‘‘[2] ’’ابن جریر طبری رحمہ اللہ کاکہناہے کہ( اس آیت کی تفسیر میں وارد تین متنوع اقوال میں سے) سب سے بہتر قول ان مف سرین کاہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ عز و جل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے‘ دشمنان اسلام کی ان جنگی چالوں وغیرہ کے بارے میں مشورہ کرنے کا حکم جاری فرمایاکہ جن سے آپ کو سابقہ پڑتا تھاتاکہ اس مشورے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت محسوس کریں کہ جن کی اسلام کے بارے میں بصیرت اس قدر واضح نہیں تھی کہ وہ اس بصیرت کے ہوتے ہوئے شیطان کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتے اور( اس مشورے کا ایک اور فائدہ یہ بھی تھا )کہ اس مشورے کے عمل سے أمت کو ان مختلف مسائل کے پیش آنے اور ان کی تلاش کے(طریقہ کے)حوالے سے متنبہ کرنا مقصود تھا کہ جو امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد درپیش آنے والے تھے تاکہ مختلف حوادث کے پیش آنے کے وقت وہ اس فعل(مشاورت)میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں اور آ پس میں ا سی طرح مشورہ کریں جس طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کو مشورہ کرتے دیکھتے تھے۔‘‘ ایک اور جگہ اللہ عز و جل صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان کے باہمی معاملات مشاورت سے طے ہوتے ہیں : ﴿ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ ﴾[3] ’’اور ان(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم )کے فیصلے باہمی مشاورت سے طے ہوتے ہیں ۔‘‘ اس قرآنی ترغیب و تشویق کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کرتے تھے۔یہ مشاورت کئی قسم کی تھی۔بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایک مجمع عام سے کسی واقعے کے بارے میں رائے طلب فرماتے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ أحد کے موقع پر انصار و مہاجرین سے مدینہ میں یا مدینہ سے باہر جا کر جنگ کرنے کے بارے میں مشورہ طلب کیا اور بعض حالات میں آپ مخصوص صحابہ ہی سے مشورہ کیا کرتے تھے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کی( بظاہر)عدم اطاعت کی صورت حال میں أم المؤمنین حضرت أم سلمہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ کیا۔بعض صحابہ ایسے بھی تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مستقل مشیروں میں شمار ہوتے تھے جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’ أخبرنا أبوجعفر محمد بن أحمد البغدادی ثنا یحی بن أیوب العلاف بمصر ثنا سعید بن أبی مریم
Flag Counter