Maktaba Wahhabi

194 - 214
’’ ویجاب عنہ بأن ھذا الإجماع غیر مسلم لأنہ قد وجد من العلماء من قال بخلافہ ثم إن القول بالمنع من الإلزام بقول واحد قول صحیح لو کان جمیع القضاۃ من المجتھدین أما قد علمنا أن العدد المطلوب تعینہ من القضاۃ للفصل بین خصومات الناس یلزم تعیین من لم یصل إلی مرتبۃ الاجتھاد وھم کثیر فیصبح تعینھم جائز للضرورۃ أو الحاجۃ وبالتالی فإن إلزاھم بقول واحد فی ھذہ الحالۃ أمر سائغ۔‘‘[1] ’’ اس کاجواب یہ دیا جائے گا کہ اجماع کا یہ دعوی غیر مسلم ہے کیونکہ علماء کی ایک جماعت نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے۔دو سری بات یہ ہے کہ کسی ایک قول کولازم قرار دینے سے علماء نے جو منع کیا ہے تو یہ منع اس صورت میں ہے جبکہ تمام قاضی مجتہد ہوں ۔ اس کے برعکس ہم یہ جانتے ہیں کہ لوگوں کے باہمی تنازعات کے فیصلوں کے لیے قاضیوں کی جتنی تعداد آج ہمیں مطلوب ہے‘ اس کا تقاضا یہ ہے کہ کثیر تعداد میں ان قاضیوں کوبھی عہدہ قضاء دیا جائے جو درجہ اجتہاد کو نہ پہنچتے ہوں ۔ پس اس صورت حال میں ان قاضیوں کی تعیناتی ضرورت اور حاجت کے تحت جائزہو گی۔ پس ان حالات میں قاضیوں کو کسی ایک قول کو پابند کرناایک منا سب امر ہو گا۔‘‘ اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے میں جن علماء کا اختلاف نقل ہوا ہے تو وہ مقلد قاضی کے بارے میں ہے نہ کہ مجتہدکے بارے میں ۔محل اختلاف تو یہ ہے کہ اگرکوئی قاضی درجہ اجتہاد پر فائز ہو اورحق بات تک ر سائی حاصل کر لے یا کوئی مقلد قاضی اپنے مذہب کے کسی قول کو حق سمجھ رہا ہو جبکہ ریا ست کا قانون اس کے خلاف ہو تو کیا اس کے باوجود بھی اس قاضی کے لیے اس حق کے خلاف اورریا ست کے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا جائز ہو گا؟۔ اس مسئلے میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ أ ستاذ محمد سلام مدکور حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ إذا قید الحاکم القاضی أن یقضی بخلاف مذہبہ وبالضعیف من مذھبہ فھذا التقیید باطل ولم نقف علی خلاف فی ھذا بین المتقدمین من فقھاء المذاھب والدلیل علی ذلک أن القاضی مأمور أن یحکم بالحق والحق ما یعتقدہ صحیحاً سواء کان الاعتقاد عن طریق بذل الجھد والنظر أم عن طریق الاقتناع برأی إمامہ والعلم بمذہبہ۔‘‘[2] ’’جب حکمران قاضی پر یہ شرط عائد کرے کہ قاضی اپنے مذہب کے خلاف یا اپنے مذہب کے ضعیف قول کے مطابق فیصلہ کرے تو یہ قید لگانا باطل ہے اور اس مسئلے میں ہمیں علمائے متقدمین میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ قاضی کو حق کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم ہے اور قاضی کے نزدیک حق وہ ہے جس کے بارے میں وہ صحیح ہونے کا اعتقاد رکھتا ہو ‘چاہے اس کا یہ عقیدہ اس کے اجتہادو غور وفکر کی وجہ سے ہو یااپنے امام کی رائے اور اپنے مذہب کے علم کی بنیاد پرہو۔‘‘ ا سی طرح امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تو اس کو شرک قرار دیاہے کہ ایک قاضی کسی مقدمے میں حق بات کوپہچان لے اور پھر بھی کسی وجہ سے اس کے خلاف فیصلہ کرے‘ جیسا کہ ہم اس مسئلے میں امام صاحب کاقول نقل کر چکے ہیں ۔ دو سرا نکتہ یہ ہے کہ یہ بھی در ست نہیں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں مجتہد قضاۃ کا حصول مشکل ہے کہ جو معاشرے کی ضرورت پوری کر سکیں ۔ہم اپنے ارد گرد معاشرے پر ایک نگاہ ڈالیں تو ہمیں یہ محسوس ہو گا کہ جدید مسائل میں ہر مکتبہ فکر کے علماء و فقہاء کے فتاوی اور رہنمائی موجود ہے۔پاکستان ہی کو لے لیں ‘جب بھی کوئی نیا مسئلہ درپیش آتا ہے تو ہر دو سرے دار العلوم سے اس کے حق میں یا اس کے خلاف فتوی جاری ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود بعض ناواقف حضرات یہ کہتے ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہے یا معاصر علماء میں اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے۔ہمارے خیال میں علماء کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو جدیدمعاصر مسائل کا حل اپنی اجتہادی بصیرت کی روشنی میں پیش کر سکتی ہے اور قدیم مسائل میں مختلف فقہی مذاہب کے مدون اقوال کے ذخیرے کو ایک ہی مذہب شمار کرتے ہوئے ان میں سے راجح و مرجوح‘ شاذ و مفتی بہ‘ معمول بہ و غیر
Flag Counter