Maktaba Wahhabi

195 - 214
معمول بہ فتاوی وغیرہ میں امتیاز کر سکتے ہیں ۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ایک ریا ست میں ہائی کورٹ س یا سپریم کورٹ کے قاضیوں کی تعداد ہی کیا ہوتی ہے؟۔یہ کوئی اتنی بڑی تعداد نہیں ہے کہ اس قدر مجتہد علماء کسی خطہ ارضی میں موجود نہ ہو۔ اس پر یہ اعتراض بھی وارد کیا گیا ہے کہ اگر تقنین نہ بھی کی جائے تو اس صورت میں بھی اگرقاضی مجتہد ہو اور کسی تنازع میں مختلف فیہ اقوال موجود ہوں تو قاضی تو قرآن و سنت کی روشنی میں ان اقوال میں سے ایک ہی قول کے مطابق فیصلہ کرے گا جو اس کے نزدیک راجح اور حق ہو گا۔اور اس کا عین امکان موجود ہے کہ جس کے خلاف قاضی کا فیصلہ نافذکیاجارہا ہو وہ شخص اس مسئلے میں کسی دو سرے قول کا قائل ہو تو ایسی صورت میں قاضی کے قول کا نفاذ ایک عامی پر کیسے جائز ہو گا؟۔ اس اعتراض کا جواب امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بڑے خوبصورت پیرائے میں دیا ہے۔ان کے نزدیک مختلف فیہ مسائل میں حکام کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کو کسی معین قول کا پابند بنائے۔ہاں اس صورت میں حاکم کے لیے کسی معین قول کا الزام در ست ہے جبکہ دو اشخاص اپنے کسی تنازع میں فیصلے کے لیے اس کی طرف رجوع کریں ۔ اس صورت میں حاکم یا قاضی کا اجتہاد اس شخص پر نافذ العمل ہو گا۔امام صاحب کی عبارت اگرچہ اس مسئلے میں طویل ہے لیکن وہ کئی ایک علمی فوائد و نکات پر مشتمل ہے۔ہم ممکنہ حد تک اس عبارت کا اختصار ذیل میں نقل کر رہے ہیں : ’’ فیما جعل اللّٰہ للحاکم أن یحکم فیہ وما لم یجعل لواحد من المخلوقین الحکم فیہ بل الحکم فیہ علی جمیع الخلق اللّٰہ تعالیٰ ولر سولہ صلي اللّٰه عليه وسلم لیس لأحد من الحکام أن یحکم فیہ علی غیرہ ولو کان الشخص من آحاد العامۃ إذا وقع فیہ نزاع بین الحکام و بین آحاد المسلمین من العلماء أو الجند أو العامۃ أو غیرھم لم یکن للحاکم أن یحکم فیھا علی من ینازعہ ویلزمہ بقولہ و یمنعہ من القول الآخر فضلا عن أن یؤذیہ أو یعاقبہ۔‘‘[1] ’’یہ فصل اس بارے میں ہے کہ کن مسائل میں حاکم کے لیے جائز ہے کہ وہ فیصلہ کرے گا اور کون سے مسائل ایسے ہیں کہ جن میں اللہ نے فیصلے کا اختیار مخلوق میں کسی کو نہیں دیاہے بلکہ ان مسائل میں جمیع مخلوق پر فیصلے کا اختیارصرف اللہ اور اس کے ر سول کا حق ہے اور حکام میں سے کسی حکمران کویہ حق نہیں ہے کہ ان مسائل میں کسی غیر کے بارے میں وہ فیصلہ کرے اگرچہ وہ شخص ایک عامی ہی کیوں نہ ہو۔۔۔ پس جب(مختلف فیہ مسائل)میں حکمران اور کسی مسلمان عالم دین یاجماعت یا عامۃ الناس یا ان کے علاوہ میں اختلاف ہو جائے تو حاکم کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جس سے اس کا تنازع ہے اس کے بارے میں حکم جاری کرے اور اس پر اپنے قول کو لازم قرار دے اور ا سے کسی دو سرے قول کے اختیار کرنے سے منع کرے چہ جائیکہ کہ وہ اس شخص کو کسی قسم کی اذیت یا سزا دے۔‘‘ آگے چل کر مختلف مسائل میں فقہاء کے اختلافات کی مثالیں نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ وکذلک تنازعوا فی کثیر من مسائل الفرائض۔۔۔وکثیر من مسائل الطلاق وغیر ذلک وکثیر من مسائل العبادات فی الصلاۃ والصیام والحج وفی مسائل زیارات القبور۔۔۔وتنازعوا فی تفسیر الآیات وفی بعض الأحادیث: ھل تثبت عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ؟ أو لم تثبت؟ فھذہ الأمور الکلیۃ لیس لحاکم من الحکام کائناً من کان ولو کان من الصحابۃ أن یحکم فیھا بقولہ علی من نازعہ فی قولہ فیقول: ألزمتہ أن لایفعل ولایفتی إلا بالقول الذی یوافق لمذھبی بل الحکم فی ھذہ المسائل للّٰہ ور سولہ والحاکم واحد من المسلمین فإن کان عندہ علم تکلم بما عندہ وإذاکان عند منازعہ علم تکلم بہ فإن ظھر الحق فی ذلک وعرف حکم اللّٰہ ور سولہ وجب علی الجمیع اتباع حکم اللّٰہ ور سولہ وإن خفی ذلک أقر کل
Flag Counter