Maktaba Wahhabi

196 - 214
واحد علی قولہ أقر قائل ھذا القول علی مذہبہ وقائل ھذا القول علی مذھبہ ولم یکن لأحدھما أن یمنع الآخر إلا بلسان العلم والحجۃ والبیان فیقول ما عند من العلم۔‘‘[1] ’’ا سی طرح مسلمان علماء کے مابین وراثت کے کئی ایک مسائل میں اختلاف ہوا۔۔۔علاوہ ازیں طلاق وغیرہ اور عبادات مثلا نماز‘ روزہ ‘حج وغیرہ اور زیارت قبورکے بھی اکثر مسائل میں علماء کا اختلاف نقل ہوا ہے۔۔۔ا سی طرح قرآنی آیات کی تفسیر میں بھی ان کا اختلاف مروی ہے اور بعض احادیث کی اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کے ثابت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی ان میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ان تمام أمور میں کسی حاکم‘ چاہے وہ صحابی ہی کیوں نہ ہو ‘ کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اگر اس کو مذکورہ بالا مسائل میں سے کسی مسئلے میں کسی شخص سے اختلاف ہو جائے تو وہ اس شخص پر اپنے قول کے مطابق فیصلہ نافذ کرے اوروہ یہ کہے:میں تجھ پر یہ بات لازم ٹھہراتا ہوں کہ ایسا نہ کر یا صرف میرے مذہب کے موافق قول کے مطابق ہی فتوی دے۔حقیقت یہ ہے کہ ان مسائل میں فیصلے کا اختیار اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور حاکم وقت مسلمانوں میں سے ایک ہے۔ پس اگر اس کے پاس علم ہے تو اس علم کے مطابق اس تنازع میں گفتگو کرے گا۔ا سی طرح اگر حکمران سے جھگڑا کرنیوالے شخص کے پاس بھی علم ہے تو وہ بھی اس علم کے مطابق گفتگو کرے گا۔ پس اس گفتگو کے دوران اگر حق بات ظاہر ہو جائے اور اللہ اور اس کے ر سول کا حکم فریقین کو معلوم ہوجائے تو ہر ایک پر اللہ اور اس کے ر سول کے حکم کی اتباع فرض ہو گی۔لیکن اگر اس بحث کے باوجود بھی اللہ کا حکم ان پر مخفی رہے تو ہرایک قول کے قائل کو اس کے قول پر برقرار رکھا جائے گا۔ہر ایک قول کا قائل اپنے مذہب پر برقرار رہے گا اور ان میں سے کسی ایک فریق کو بھی یہ اختیار نہیں ہو گا کہ وہ دو سرے کو اس کے قول سے منع کرے مگر علم ‘ دلیل اور بیان کی بنیاد پر۔ پس وہ اپنے علم کے مطابق بات کرے گا۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک حاکم کی اجتہادی رائیمدعی اور مدعی علیہ پر نافذ ہو سکتی ہے۔ مدعی اور مدعی علیہ پر حاکم کی رائے م سلط کرنے کے بارے فرماتے ہیں : ’’ وأما بالید والقھر فلیس لہ أن یحکم إلا فی المعینۃ التی یتحاکم فیھا إلیہ مثل میت مات وقد تنازع ورثتہ فی قسم ترکتہ فیقسمھا بینھم إذا تحاکموا إلیہ وإذا حکم ھنا بأحد قولی العلماء ألزم الخصم بحکمہ ولم یکن لہ أن یقول أنا لا أرضی حتی یحکم بالقول الآخر وکذلک إذا تحاکم إلیہ اثنان فی دعوی یدعیھا أحدھما فصل بینھما کما أمر اللّٰہ ور سولہ وألزم المحکوم علیہ بما حکم بہ ولیس لہ أن یقول: أنت حکمت علی بالقول الذی لا أختارہ فإن الحاکم علیہ أن یجتھد کما قال النبی صلي اللّٰه عليه وسلم إذا اجتھد الحاکم فأصاب فلہ أجران وإذا اجتھد فأخطأ فلہ أجر۔‘‘[2] ’’جہاں تک کسی پرزبرد ستی اور جبراً اپنی رائے م سلط کرنے کا معاملہ ہے تو حاکم کو اس کا اختیار صرف ان معین مسائل میں ہے کہ جن میں فیصلے کے لیے اس کی طرف رجوع کیا جائے مثلاً ایک شخص مر گیااور اس کے ورثاء میں ترکے کی تقسیم کے بارے میں اختلاف ہوگیا۔ پس جب وہ ورثاء حاکم کے پاس فیصلہ حاصل کرنے کے لیے آئیں اور اس وقت حاکم علماء کے کسی ایک قول کے مطابق فیصلہ کر دے تو ہر ایک فریق حاکم کے اس فیصلے کا پابند ہو گا اور کوئی فریق یہ نہ کہے گا کہ میں اس فیصلے سے اس وقت راضی ہوں گا جبکہ حاکم دو سرے قول کے مطابق فیصلہ کرے۔ا سی طرح اگر کسی چیز کے بارے میں حاکم کے پاس دو شخص فیصلہ حاصل کرنے کے لیے آئیں جبکہ ان میں ایک شخص مدعی ہو تو حاکم ان کے مابین اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق فیصلہ کرے گا۔اور جس کے بارے میں حاکم نے فیصلہ کیا ہے اس پر حاکم کا حکم لازم ہو جائے گااور اس شخص کے لیے(حاکم کو)یہ کہناجائز نہ ہو گا: تو اس قول کے مطابق فیصلہ کیا ہے جو مجھے پسند نہیں ہے۔حاکم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اجتہاد کرے جیسا کہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حاکم اجتہاد کرتا ہے اور صحیح رائے تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے اور اگر اس نے خطاکی تو اس کے لیے ایک گنا اجر ہے۔‘‘
Flag Counter